پانی رے پانی

530

[پینے کے صاف پانی کا حصول آج کم و بیش پوری دنیا میں ایک بڑے مسئلے کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ ترقی پزیر اور پس ماندہ ممالک میں صورت ِ حال انتہائی نازک ہے۔ افریقا اور ایشیا کے بہت سے ممالک میں پینے کے صاف پانی کا باقاعدگی سے حصول اب زندگی کے سب سے بڑے بنیادی مسئلے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بعض ممالک کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم بھی تنازع اور محاذ آرائی کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس کی ایک واضح مثال پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم ہے۔ بھارت چونکہ اس معاملے میں واضح برتری رکھتا ہے اس لیے جب چاہتا ہے پانی روک دیتا ہے اور جب چاہتا ہے، بتائے بغیر پانی کھول کر سیلابی کیفیت پیدا کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔ پاکستان جیسے ممالک میں پینے کے صاف پانی کے حصول کی راہ میں جو دشواریاں حائل ہیں وہ کسی بھی طور پوشیدہ نہیں۔ اس حوالے سے صورتِ حال کی سنگینی بڑھتی جارہی ہے۔ پینے کا صاف پانی چونکہ پوری دنیا کی ضرورت ہے اس لیے اس حوالے سوچا بھی بہت کچھ جارہا ہے۔ پانی اب چونکہ تجارتی اموال میں شامل ہے اس لیے معاملہ زیادہ نازک ہوگیا ہے۔ پس ماندہ ممالک میں عوام پینے کا پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں بھی صورتِ حال بہت بُری ہے۔ کراچی اور دیگر بڑے شہروں کے علاوہ بہت سے دیہی علاقوں میں بھی پینے کا پانی حاصل کرنا دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ زیر نظر مضمون اِسی تناظر میں پڑھا جانا چاہیے۔]
………
دنیا بھر میں لاکھوں کنویں بہت تیزی سے سُوکھنے کے مرحلے میں داخل ہوسکتے ہیں۔ زیرِ زمین پانی بہت زیادہ نکالا جارہا ہے۔ خشک سالی کا شکار ہونے والا رقبہ بڑھتا جارہا ہے اور موسمی حالات کی تبدیلی نے بھی معاملات کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔ نئی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں زیرِ زمین پانی کی سطح تیزی سے گرتی جارہی ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں 20 فی صد تک کنویں ناکامی سے دوچار ہونے کے نزدیک پہنچ چکے ہیں۔ ان کنووں کے بند یا خشک ہو جانے سے کم و بیش ایک ارب افراد متاثر ہوں گے۔ ان کے لیے پینے کے صاف پانی کا حصول انتہائی دشوار ہو جائے گا۔ کھاری پانی عام آدمی کے لیے بہت سے معاملات میں انتہائی ناقابلِ استعمال ہوتا ہے۔ اِس سے نہ کپڑے دھوئے جاسکتے ہیں نہ پودوں کو پانی دیا جاسکتا ہے۔ زیادہ کھاری پانی نہانے کے لیے بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، سانتا باربرا میں آبی امور کی ماہر ڈیبرا پیرون کہتی ہیں کہ زیرِ زمین پانی کے حوالے سے امریکا سے بھارت تک صورت ِ حال بگڑتی جارہی ہے۔ وہ معروف جریدے ’’سائنس‘‘ میں شائع ہونے والی اُس تحقیقی رپورٹ کی شریک مصنفہ ہیں جس میں 49 ممالک میں 3 کروڑ 90 لاکھ کنووں کا ڈیٹا جمع کرکے اس کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ پیرون اور شریک مصنف اسکاٹ جیسی چکو (یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں اُن کے ساتھی محقق) نے پہلے تو کنووں کی گہرائی کا جائزہ لیا اور اس کے بعد انہوں نے زیرِ زمین پانی کی سطح جانچی۔ اس سلسلے میں انہوں نے پچھلی تحقیق کا بھی سہارا لیا۔ انہوں نے دیکھا کہ لاکھوں کنویں پانی کی سطح سے 16 فٹ سے زیادہ گہرے نہیں۔ ان کے جلد خشک ہو جانے کا خطرہ موجود ہے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق کم و بیش 20 فی صد کنویں خشک ہوجانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ خشک سالی سے دوچار علاقوں میں کنووں کے مکمل طور پر خشک ہو جانے کا خطرہ زیادہ قوی ہے۔
اسکاٹ جیسی چکو کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں زیرِ زمین پانی کی سطح تیزی سے گرتی جارہی ہے وہاں ایک سال میں پانی کی سطح ایک میٹر یا اِس سے زیادہ بھی گر سکتی ہے۔ امریکا کے مغربی علاقوں میں یہ صورتِ حال تیزی سے پنپتی جارہی ہے۔ کلی فورنیا کی وادیٔ وسط کے لوگ اب کے گرمیوں میں کسی بھی صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ کیلی فورنیا کے اندرونی علاقوں میں ایک عشرے کے دوران ہزاروں کنویں خشک ہوچکے ہیں۔ ڈیبرا پیرون اور اسکاٹ جیسی چکو نے گزشتہ برس معروف جریدے ’’ارتھز فیوچر‘‘ میں تحقیق پر مبنی ایک مضمون میں بتایا تھا کہ 2013 سے 2018 کے دوران کیلی فورنیا کی وادیٔ وسط میں ہزاروں کنویں خشک ہوچکے ہیں۔
پینے کے پانی کے حصول کی راہ میں حائل مشکلات دور کرنے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ زیادہ گہرے کنویں کھودے جائیں۔ ٹھیک ہے، ایسا کرنے سے بہت سوں کے مسائل حل ہوسکتے ہیں مگر زیادہ گہرا کنواں کُھدوانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ غیر معمولی گہرائی والے کنویں کھودنا اور اُن کی دیکھ بھال کرنا بہت مشکل ہے۔ پھر ایک بات اور بھی ہے، یہ کہ اگر بہت گہرے کنویں کھودنے کا عمل جاری رہا تو کچھ لوگ تو پانی حاصل کر پائیں گے اور دوسرے محروم رہیں گے۔ اس سے معاشرے میں تقسیم مزید بڑھے گی۔
ایک طرف تو زیرِ زمین پانی کی سطح گرتی جارہی ہے اور کنویں خشک ہوتے جارہے ہیں اور دوسری طرف پوری دنیا میں ماحول کو پہنچنے والے نقصان کے باعث موسم کا بنیادی ڈھانچا تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ایسے میں پینے کے پانی کا حصول مزید مشکل ہوتا جارہا ہے۔ کینیڈا کی سیسکیچوان یونیورسٹی سے وابستہ آبی امور کے ماہرین جیمز فیمگلئیٹی اور گرانٹ فرگوسن کہتے ہیں کہ ڈیبرا پیرون اور اسکاٹ جیسی چکو نے ایک ایسے بحران کی نشاندہی کی ہے جو ہے تو سہی مگر دکھائی نہیں دے رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ماہرین کو اس مسئلے پر پوری طرح متوجہ ہونا چاہیے تاکہ کروڑوں، بلکہ اربوں انسانوں کو درپیش مشکلات کا خاتمہ یقینی بنایا جاسکے۔ گہرے کنویں کُھدوانا یا بورنگ کرانا ترقی یافتہ ممالک میں بھی آسان نہیں اور کم ہی لوگ اِس کے متحمل ہو پاتے ہیں۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ پس ماندہ دنیا کے ممالک میں کروڑوں افراد کو کس نوعیت کی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایشیا اور افریقا کے علاوہ جنوبی امریکا میں بھی کروڑوں غریب گہرے کھدوانے کی سکت نہیں رکھتے۔ اگر صرف مالدار افراد گہرے کنویں کھدوا کر پینے کے صاف پانی پر متصرف ہو بیٹھیں تو معاشرے میں خرابی بڑھے گی۔ اس حوالے سے حکومتوں کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ پانی جیسی بنیادی چیز کے حوالے سے معاشرتی خرابیاں پیدا نہ ہوں۔ افریقا اور ایشیا کے پس ماندہ معاشروں میں پانی کا معاملہ آج بھی پوری طرح درست نہیں کیا جاسکا ہے۔ اگر حکومتیں متوجہ نہ ہوئیں تو پانی کا مسئلہ انتہائی خطرناک شکل اختیار کرلے گا۔ ایسی حالت میں کئی ممالک کے لیے بقاء کا مسئلہ بھی اٹھ کھڑا ہوگا۔ ماہرین ایک زمانے سے کہہ رہے ہیں کہ مستقبل میں جنگیں پانی کے لیے ہوا کریں گی۔ جس مستقبل کی بات کی جارہی تھی وہ اب آہی چکا ہے۔ ایسے میں عالمی اداروں کو زیادہ متحرک ہوکر پانی کے معاملے پر اعلٰی سطح کی مشاورت یقینی بنانی چاہیے تاکہ کمزور ممالک کے لیے اس مسئلے کی شدت کو کم کیا جاسکے۔
www.scientificamerican.com
Millions of Groundwater Wells Could Run Dry Overpumping, drought and climate change are lowering water tables worldwide
By Chelsea Harvey April 27, 2002