ترقی پسندوں کا اقبال

918

ادبی و فکری تنقید کا ایک بنیادی تقاضا یہ ہے کہ آدمی کو متن یا Text کا وفادار رہنا چاہیے۔ ادبی و فکری تنقید میں اہم بات یہ نہیں ہے کہ میرا یا آپ کا دل کیا کہنے کو چاہ رہا ہے بلکہ ادبی و فکری تنقید میں اہم بات یہ ہے کہ جس متن یا Text کے حوالے سے کلام کرنے والا کلام کررہا ہے وہ متن یا Text خود کیا کہہ رہا ہے۔ بدقسمتی سے برصغیر کے ترقی پسند اسلام، اسلامی فکر، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کے تجزیے میں کبھی بھی متن یا Text کے وفادار نہیں رہتے۔ وہ ہمیشہ متن پر اپنے معنی مسلط کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اس کی ایک اہم اور دلچسپ نظیر ڈاکٹر رئوف پاریکھ نے 19 اپریل 2021ء کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں پیش کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مضمون میں معروف ترقی پسند نقاد مجنوں گورکھ پوری کا ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول مجنوں گورکھ پوری نے اپنی کتاب اقبال! ایک اجمالی تبصرہ میں لکھا ہے کہ اقبال کی شاعری میں ان کے آخری دور میں ایک خطرناک رجحان پیدا ہوگیا تھا اور یہ رجحان ’’عقابیت‘‘ تھا۔ مجنوں گورکھ پوری نے لکھا ہے کہ عقابیت پسندی ایک طرح کی فسطائیت ہے۔ مجنوں گورکھ پوری نے مزید لکھا کہ اقبال کی فکر اور بصیرت میں شاہین، چیتے اور عقاب جیسے ’’سفاک جانوروں‘‘ نے مرکزی حیثیت حاصل کرلی تھی اور اقبال چاہتے تھے کہ انسانوں بالخصوص مرد مومن میں پھاڑ کھانے والے جانوروں کی صفات پیدا ہوجائیں۔ ڈاکٹر رئوف پاریکھ نے بجا طور پر لکھا ہے کہ شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ نہیں ہے اس پرندے میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ (1) خود دار اور غیرت مند ہے کہ کسی کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ (2) بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ (3) بلند پرواز ہے۔ (4) خلوت پسند ہے۔ (5) تیز نگاہ ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے اقبال کے شعر مثال کے طور پر پیش کیے ہیں۔ مثلاً:
گزر اوقات کرلیتا ہے وہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی
٭٭
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
٭٭
شاہینں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
٭٭
پرواز ہے دونوں کی اس ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور
یہ اشعار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ مجنوں گورکھ پوری اقبال کے متن یا Text کے ساتھ وفادار نہ تھے۔ انہوں نے اقبال کے شاہین پر اپنے خیالات مسلط کیے اور اس طرح اپنے قارئین کو دھوکا دیا۔ ان سے جھوٹ بولا۔ اتفاق سے ڈاکٹر رئوف پاریکھ کے مضمون کے نیچے معروف ترقی پسند دانش ور ڈاکٹر سید جعفر احمد کا مضمون موجود ہے۔ مضمون کا عنوان ہے۔ اقبال! عہدِ جدید کے تناظر میں۔ اس مضمون کا بنیادی مسئلہ بھی یہی ہے کہ ڈاکٹر جعفر اقبال کے Text کے ساتھ وفادار نہیں رہے اور انہوں نے اقبال سے وہ باتیں منسوب کیں جو اقبال نے کہی ہی نہیں۔
ڈاکٹر جعفر احمد نے لکھا ہے کہ اقبال کے زمانے میں برصغیر کے اہل فکر مشرق و مغرب کے تضاد کے چیلنج سے نبرد آزما تھے۔ اقبال نے اس تضاد کو جداگانہ طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر جعفر کا یہ تجزیہ درست نہیں۔ اقبال نے تضاد کو حل نہیں کیا۔ مسلمانوں کو اس تضاد سے نکلنے کی راہ دکھائی۔ اقبال مشرق و مغرب کی اس معرکہ آرائی میں غیر جانبدار نہیں تھے۔ اقبال مشرق و مغرب کی آویزش میں مشرق کے ساتھ تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ اقبال کا مشرق اسلام تھا۔ بدھ مت، ہندوازم یا عیسائیت نہیں۔
ڈاکٹر جعفر نے لکھا ہے کہ برصغیر میں ایک طرف مغرب سے مرعوبیت کا رجحان تھا اور دوسری طرف مغرب کی ہر چیز کی مذمت پائی جاتی تھی۔ مغرب سے مرعوب ہونے والوں کی علامت سرسید تھے اور مغرب کی ہر چیز کو رد کرنے والوں کی علامت اکبر الٰہ آبادی تھے۔ ڈاکٹر جعفر کے بقول اقبال ان دو دھاروں کے درمیان ایک اور دھارے کی راہ ہموار کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے ایک بہت بڑا دعویٰ کردیا مگر دعوے کے سلسلے میں مثال ایک بھی نہیں دی۔ انہیں اس سلسلے میں اقبال کے پانچ سات شعر تو ضرور پیش کرنے چاہییں تھے۔ لیکن ڈاکٹر جعفر نے ایک شعر بھی پیش نہیں کیا۔ ہم اس سلسلے میں ان کی معذوری کو سمجھتے ہیں۔ اقبال کے یہاں ’’درمیانی راستے‘‘ کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ اقبال کے یہاں مغرب کا استراد بھٹو صاحب کی اصطلاحوں میں Full، Total، Complete تھا۔ ڈاکٹر جعفر نے اقبال کے متن سے ایک بھی مثال نہیں دی مگر ہم اقبال کے Text سے مثالیں پیش کیے بغیر نہیں رہیں گے۔ اقبال کی دو شعروں پر مشتمل نظم ہے۔ ’’مغربی تہذیب‘‘ اس نظم میں اقبال کہتے ہیں۔
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیرِ پاک، خیالِ بلند، ذوقِ لطیف
اقبال کہ یہ دو شعر مغربی تہذیب پر ایٹمی حملے سے کم نہیں۔ اس حملے نے پورے مغرب کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ اقبال نے ان دو شعروں میں جدید مغربی تہذیب پر پانچ فکری ایٹم بم گرائے ہیں۔ اقبال نے مغرب پر پہلا اعتراض یہ کیا ہے کہ مغربی تہذیب قلب و نظر کے فساد کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ظاہر ہے کہ جو تہذیب قلب و نظر کا فساد ہے اس میں کوئی خیر نہیں ہوسکتا۔ مغرب پر اقبال کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس تہذیب کی روح پاک نہیں ہے۔ پاک نہیں ہے تو ناپاک ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ جس تہذیب کی روح ہی ناپاک ہو اس تہذیب میں کون سی چیز قابل قدر اور لائق تعریف ہوگی۔ اقبال نے مغربی تہذیب پر تیسرا حملہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جس تہذیب کی روح پاک نہ ہو اس کا ضمیر بھی پاک نہیں ہوسکتا۔ اقبال کا چوتھا حملہ یہ ہے کہ جس تہذیب کی روح پاک نہ ہو اس کے پاس کوئی بلند یا بڑا خیال بھی نہیں ہوسکتا۔ اقبال کا پانچواں حملہ یہ ہے کہ جس تہذیب کی روح ناپاک ہو اس کے پاس ذوق لطیف بھی نہیں ہوسکتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغربی تہذیب انسانی تہذیب ہی نظر نہیں آتی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغربی تہذیب اپنی اصل میں ایک شیطانی تہذیب ہے۔ تو کیا اقبال مسلمانوں کو رحمانی تہذیب کے ساتھ ساتھ شیطانی تہذیب سے استفادے کا درس دے رہے تھے۔
اقبال کا ایک شعر ہے۔
محسوس پر بنا ہے علومِ جدید کی
اس دور میں ہے شیشہ عقاید کا پاش پاش
اقبال کہہ رہے ہیں کہ جدید مغربی تہذیب کے پیدا کردہ علوم کی بنیاد حواس سے حاصل ہونے والے علم پر رکھی ہوئی ہے۔ جب کہ ہماری تہذیب حواس سے ماورا علم یعنی علم وحی پر کھڑی ہے۔ چناں چہ مغربی تہذیب کے علوم ہمارے عقاید کو تباہ و برباد کردینے والے ہیں۔ اس طرح اقبال نے اس شعر میں مغرب کی الٰہیات یا ontology کو بھی مسترد کردیا اور اس کے تصور علم یا Epistimology کو بھی مسترد کردیا۔ اقبال کی ایک اور نظم ’’سیاست افرنگ‘‘ یاد آئی۔ اقبال نے اس میں فرمایا۔
تری حریف ہے یا رب سیاستِ افرنگ
مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس
بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تو نے
بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس
اقبال نے اس نظم میں مغرب کی سیاست پر بھی خط تنسیخ پھیر دیا اور مغرب کی سیاست سے نمودار ہونے والے سیاست دانوں کو ابلیس قرار دے کر انہیں بھی مسترد کردیا۔ اقبال کی شاعری سے مغرب کی مذمت اور استراد کو ظاہر کرنے والی مزید مثالیں حاضر ہیں۔
یورپ اور یہود
یہ عیش فراواں یہ حکومت یہ تجارت
یہ سینۂ بے نور ہیں محروم تسلّی
تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھوئیں میں
یہ وادیٔ ایمن نہیں شایانِ تجلّی
ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیبِ فرنگی
شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولّی
عورت اور تعلیم
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
آزادیٔ نسواں
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے وہ قند
کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذور ہیں مردانِ خرد مند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادیٔ نسواں کے زمرد کا گُلو بند

ڈاکٹر جعفر احمد نے اقبال پر ایک الزام یہ لگایا ہے کہ وہ مغرب کے ظاہری پہلوئوں پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کی نظر صرف مغرب کے مادی پہلوئوں تک جاتی ہے۔ اقبال مغرب کو ’’روحانی آسودگی‘‘ فراہم کرنے والے عوامل، اس کے تخلیقی جوہر اور اس کی جمالیات کو نہیں دیکھتے۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریر کا یہ حصہ پڑھ کر ہم ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے۔ بھائی جس تہذیب نے خدا کا انکار کردیا ہو، وحی کا انکار کردیا ہو، رسالت کے ادارے کا انکار کردیا ہو، آخرت کا انکار کردیا ہو۔ جنت و دوزخ کا انکار کردیا ہو، فرشتوں کا انکار کردیا ہو، معروضی اخلاق یا Objective Morality کا انکار کردیا ہو۔ اس تہذیب میں روح اور روحانی آسودگی کہاں سے آئے گی اور وہ اقبال یا کسی کو بھی کیسے نظر آئے گی۔ مغربی تہذیب الف سے یے تک مادی تہذیب ہے۔ چناں چہ اقبال کو اس میں صرف مادیت ہی نظر آتی ہے۔ اصول ہے جو موجود ہوتا ہے وہی نظر آتا ہے۔ جو موجود نہیں ہوتا وہ نظر بھی نہیں آتا۔ اسلام، عیسائیت، یہودیت اور ہندو ازم کی ایک روحانیت ہے اور وہ سب کو نظر آئی ہے مگر جدید مغربی تہذیب کی کوئی روحانیت ہی نہیں۔ چناں چہ اس کی روحانیت ڈاکٹر جعفر کے سوا دنیا میں کسی کو نظر نہیں آتی۔
ڈاکٹر جعفر احمد نے اپنے مضمون میں تہذیبوں کے تصادم کو مجذوب کی بڑکہا ہے حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کا اقرار نہیں تہذیبوں کے تصادم کا انکار مجذوب کی بڑ ہے۔ تہذیبوں کا تصادم غزالی کے زمانے میں تھا اور غزالی نے یونانی فلسفے کو رد کرکے اس کی گواہی دی۔ تہذیبوں کا تصادم اکبر الٰہ آبادی کے زمانے میں تھا اور اکبر کی بے مثال شاعری اس کا ثبوت ہے۔ تہذیبوں کا تصادم اقبال کے زمانے میں موجود تھا اور اقبال کے سیکڑوں اشعار اس کے گواہ ہیں۔ تہذیبوں کا تصادم مولانا مودودی کے زمانے میں تھا اور مولانا کا بے مثال علم کلام اس کی ناقابل تردید شہادت ہے۔ ڈاکٹر جعفر احمد کو ان باتوں کی ابھی تک اطلاع نہیں ہوئی۔ کیا وہ کسی غار میں زندگی گزار رہے ہیں؟۔