یورپی پارلیمنٹ : قراردادکے ٹیڑھے خطوط

849

پہلا حصہ

سیدالمرسلینؐ کی ناموس، عزت ومنزلت سے دستبرداری کے باب میں یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد! آخ تھو …
آج دنیا ازسر نو ترتیب پارہی ہے۔ مغرب کا وہ فکری اور تہذیبی الحاد جس کی تاریخ پچھلی چند صدیوں پر محیط ہے، جو مغرب کا حوالہ بن گیا ہے، اس پر بڑھاپے کے سائے بڑی تیزی سے پھیل رہے ہیں جب کہ امت محمدی، اللہ سبحانہ تعالیٰ اور عالی مرتبتؐ کی محبت سے سرشار بیداری کی ایک نئی کروٹ لے رہی ہے۔ اسلام کے بطور نظام نفاذ کی جانب، روشنی کی جا نب، سید المرسلین کے مکتب کی جانب، صراط مستقیم کی جانب، خلافت راشدہ کی جانب۔
یورپی یونین ہو یا کوئی اور، کسی بھی ملک کی سرحدیں، آئین، قانون، نظریات اور قراردادیں آپؐ کے مقام اور مرتبہ سے بلند اور اہم تو کجا، حقیر ذرے کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتیں۔ رسالت مآبؐ کی ذات مسلمانوں کے لیے زندگی کی ہدایت انسانیت کا نمونا، اقامت دین کی جدوجہد کا درس، ہمدردی، تسکین اور باطل قوتوں سے لڑنے کی طاقت ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ کے آخری رسولؐ کی محبت نہیں تو دین نہیں ایمان نہیں تو یہ کوئی جذباتی بات نہیں ہے حقیقت ہے۔ یہ زمین اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود کسی بھی ایسے شخص کو پناہ نہیں دے سکتی جس نے میرے آقا امام الانبیا، سید المرسلین، فخر موجودات، رسالت مآب سیدنا محمد ؐ کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا ہو۔
دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب انسان جنہیں تمام انسانیت کے لیے نجات دہندہ، رہبر و رہنما اور تمام انسانی صفات کے اعلیٰ ترین مراتب کی جامع شخصیت سمجھتے ہیں اس ذات کی توہین قرآن کے الفاظ میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے نور کو پھونکوں سے بجھانے کی بات ہے۔ مغرب کے پاس اگر آپؐ کی تعلیمات، اصول اور نظریات کی شکست وریخت کے لیے عقلی اور نظری دلائل موجود ہیں تو پھر انہیں بدزبانی، مغلظات پھبتیوں، فقرے بازی، ہجو گوئی اور کارٹونوں کے بجائے منطقی اور مہذب انداز میں اپنا نکتہ نظر پیش کرنا چاہیے، ٹھوس بنیادوں پر دلائل دینے چاہئیں اور مسلمانوں پر یہ ثابت کرنا چاہیے کہ محبت اور عقیدت کے لیے انہوں نے ایک غلط مرکز کا انتخاب کیا ہے، ان کا رویہ غیر عقلی ہے۔ اس کے بجائے بد زبانی مغلظات، پھبتیوں، فقرے بازی، ہجو گوئی کا راستہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا مقدمہ کمزور ہے، عقل اور دلائل سے کوسوں دور ہے۔ مسلمان مغرب کی ہردلیل کا مقابلہ دلیل سے کرسکتے ہیں لیکن کارٹون اور خاکے! یہ توہین اور گستاخی کی آخری حد سے بھی آگے کی چیز ہیں۔ فرانس کا صدر اس گستاخی کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ اس ذہنی پستی کا کیا علاج؟ سوائے اس کے کہ اس کے حاملین کو فنا کردیا جائے۔ ساری دنیا بھی الٹی لٹک جائے ناموس رسالت پر سمجھوتا ممکن نہیں۔ فرانس اور یورپی یونین کی کیا اوقات ہے؟ اسلام وہ مذہب نہیںہے جس کی بنیاد روسو، والٹیئر، لاک، ہابز اور مغربی دساتیر کے مصنفین نے رکھی ہے۔ یہ محسن انسانیت محمد عربیؐ کا لایا ہوا دین ہے جن پر خود اللہ اور اللہ کے فرشتے درودو سلام بھیجتے ہیں۔
فخر دوجہاں رسول اللہؐ، صحابہ کرامؓ کے فکرو عمل میں کس شان محبوبیت پر فائز تھے کسی بھی حوالے سے اس کا تصورکرنا، اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ کون ہے آج تک جس کے حصے میں ایسی محبت، ایسا عشق اور جنون آیا ہو؟ یہ محبت نہیں عشق وسرمستی تھی صحابہ کرام جس کے نشے میں چور رہتے تھے۔ دنیا کی ایسی کون سی ہستی ہے جس کے دوست اور چاہنے والے اس سے ایسا والہانہ عشق رکھتے ہوں کہ جب گرامی مرتبت محمدؐ کا نام نامی ہونٹوں پر آتا، آپؐ کے متعلق کچھ بیان کرتے تو جذبات کی شدت سے روتے جاتے کانپتے جاتے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ بہت کم حدیثیں بیان کرتے تھے لیکن جب کبھی عالی مرتبتؐ کا نام زبان پر آجاتا تو کانپنے لگتے، کپڑوں میں تھر تھری اور جسم میں کپکپاہٹ پیدا ہوجاتی، گردن کی رگیں پھول جاتیں، آنکھیں آنسو بن جاتیں (مستدرک حاکم) سیدنا ابوذرؓ کبھی کوئی حدیث بیان کرنا چاہتے تو زبان سے بس اتنا ہی ادا ہوتا ’’اوصانی حبی ابوالقاسم اوصانی خلیلیؐ‘‘ اور چیخ مارکر بیہوش ہوجاتے۔ بجز سرور کونین محمدؐ کون ہے جس کو محبوبیت کا یہ مقام عالی حاصل ہے؟
سیدنا زید ؓ کی گردن مارنے کا حکم دیا گیا تو ابوسفیان آگے بڑھا اور سیدنا زیدؓ سے مخاطب ہوکر کہا ’’آج تمہاری جگہ اگر (نعوذباللہ) محمد ( ؐ )کو قتل کیا جاتا تو تمہیں خوشی نہ ہوتی‘‘ سیدنا زیدؓ نے فرمایا ’’ابوسفیان۔۔ تو نعوذ باللہ ان کی جان کی بات کرتا ہے مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ میری جان کے بدلے ان کے پائوں مبارک کو کسی کانٹے کا منہ بھی چھوجائے‘‘ سیدنا زید کا سرتن سے جدا کردیا گیا۔
غزوہ احد میں ایک صحابیہؓ کو آپؐ کی شہادت کی خبر ملی تو وہ احد پہاڑ کے دامن کی طرف دوڑ پڑیں۔ لوگوں نے انہیں ان کے والد، شوہر اور بیٹوں کی لاشیں دکھائیں لیکن انہوں نے ان لاشوں کی طرف توجہ نہ کی بلکہ مسلسل رسول اللہ ؐ کو تلاش کرتیں اور آپؐ کے بارے میں پوچھتی رہیں کہ رسول اللہ ؐ کا کیا حال ہے؟ آخر کار جب لوگوں نے انہیں رسول اللہ ؐ کا پتا بتایا تو وہ رسول اللہ ؐ کی طرف تیزی سے لپکیں، آپؐ کے سامنے اپنے آپ کو زمین پر ڈال دیا اور کہنے لگیں ’’اگر آپ خیریت سے ہیں تو پھر ہر مصیبت ہیچ ہے‘‘۔
سیدہ سمیّہؓ، سیدنا یاسرؓ کی بیوی، سیدنا عمارؓ کی قابل فخر ماںجن کی انکساری اور عاجزی کے سامنے شاہی وقاربے حیثیت، جن کی غربت پر دنیا کی دولت نچھاور، جن کی بہادری اور ہمت کو عظمتوں کا سلام، جن کے صبر واسقلال کو بوسہ دینے کے لیے جراتیں قطار اندر قطار۔ تلواروں کی دھاریں، نیزوں بھالوں کی نوکیں اور دہکتے ہوئے انگارے سید الرسل محمد ؐ سے جن کے عشق ومحبت اور شوق کے جذبات مدہم نہ کرسکے۔ ان کی داستان پڑھیں تو بدن کانپ اٹھتے ہیں، روحیں جل اٹھتی ہیں۔ لیکن کفار کی طرف سے دی گئی ہر اذیت، ہر تکلیف سے رسالت مآب محمد ؐ سے ان کی آتش عشق خاک ہوجانے کے بجائے مزید بھڑک اٹھتی۔ جھنجھلا کر ابوجہل کی بد بختی نے ان کی کوکھ میں برچھی گھونپ دی۔
جہالت کا باپ یہ سمجھا کہ حق کی صدا ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی لیکن ان کی مقدس زبان سے نکلنے والی لا الہ الا اللہ محمدالرسول اللہ ؐ کی صدا اس شان سے فضائوں میں پھیلی کہ آج تک ہر لحظہ، ہر آن، ہرسو، ہر سمت یہی آواز گونج رہی ہے۔ عالی مرتبت محمد ؐ سے ان کے اس اشتیاق ومحبت اور عشق کو ہمیشہ ہمیشہ زمانے اپنے سینے سے لگائے رکھیں گے۔ وہ کیا چیز تھی، کون سی ناقابل مزاحمت قوت تھی جو اہل باطل کی تمام تر کوششوں اور ایذا رسانیوں کے باجود ان کی استقامت بلکہ تمام صحابہ کرام کی ثابت قدمی کی وجہ تھی وہ رسول اللہ ؐ کی بابرکت اور دلکش ذات کی قوت۔ صحابہ کرام شمع کے گرد اڑتے پروانوں کی طرح جس پر نثار ہونے کے لیے ہر وقت تیار بلکہ مواقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ صحابہ کرام کو نبی کریم محمدؐ کی محبت تمام قابل محبت چیزوں میںسب سے زیادہ محبوب تھی۔ یہ وہ لازوال محبت تھی جو جلد ہی سر چشمہ اسلام کی صورت ایک عالم کی پیاس بجھانے لگی۔ یورپی پارلیمنٹ چاہتی ہے ہم اس چشمہ محبت سے دستبردار ہوجائیں! نا ممکن
(جاری ہے)