اسامہ بن لادن … زندگی اور موت

880

 

یہ 1991ء کی بات ہے جب خلیجی جنگوں کے دوران 3 لاکھ امریکی فوجیوں نے پہلی مرتبہ سعودی عرب کی سرزمین پر قدم رکھا۔ یہ خلیجی جنگ کوڈ نام ’’آپریشن ڈیزرٹ شیلڈ‘‘ کے نام سے لڑی گئیں منصوبہ کے ساتھ عراق کو کویت پر قبضے کی ڈھکے چھپے انداز میں دعوت دی گئی۔ یہ گویا۔ جال تھا جس میں صدام حسین پھنس گئے۔ اگست 1990ء میں عراقی فوج نے کویت پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔ سب سے پہلے فوری طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے عراق کے خلاف معاشی پابندیاں لگائی گئیں اور پھر امریکا کی زیر قیادت 35 ملکوں کا فوجی اتحاد قائم کیا گیا۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑا فوجی اتحاد تھا۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی ملکوں کو اپنی افواج جائے وقوع پر بھیجنے کی تاکید کی گئی۔ اس جنگ میں کویت اور سعودی عرب نے 32 ارب امریکی ڈالر ادا کیے۔ 3 لاکھ امریکی فوجیوں کی سعودی عرب کی سرزمین پر قدم کو اسامہ بن لادم نے توہین آمیز قرار دیا۔ اب تک لادن سعودی عرب کے شہری تھے اور وہیں موجود تھے۔ اس سے قبل 1980ء کے عشرے میں اسامہ بن لادن مشہور عرب عالم دین شیخ عبداللہ عزام کی تحریک پر اپنی تمام خاندانی دولت اور عیش و آرام کی زندگی ترک کرکے جہاد کے لیے افغانستان آگئے۔ اس وقت امریکا میں انہیں جنگی ہیرو کے طور پر شہرت دی جاتی تھی۔ مجاہدین کے ہاتھوں روس کی شکست کے بعد جب مجاہدین کی قیادت افغانستان میں جھگڑ پڑی تو اسامہ لادن مایوس ہو کر واپس سعودی عرب آگئے۔ اس دوران صدام حسین نے کویت پر حملہ کردیا۔ یہ حملہ اور کویت پر قبضہ امریکا کی ایک ایسی چال تھی جس کے ذریعے امریکا نے خلیج میں داخلہ حاصل کیا کیوں کہ عراق کی اس جارحیت کو خلیج کے عرب ممالک نے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کیا۔ چناں چہ شاہ فہد کی دعوت پر امریکا مقدس سرزمین میں داخل ہوگیا۔
اسامہ بن لادن نے امریکی فوجیوں کی آمد کی شدید مخالفت کی۔ شاہ فہد کو تجویز دی کہ عراق کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک اسلامی فورس تشکیل دی جائے لیکن شاہ فہد نے اس مشورے کو یکسر نظر انداز کرکے امریکیوں کو مدد کی اپیل کردی جس کے باعث شاہی خاندان اور اسامہ کے درمیان تلخی پیدا ہوئی اور اسامہ بن لادن کو اپنا ملک چھوڑ کر سوڈان جانا پڑا۔ سعودی عرب نے اسامہ بن لادن کی شہریت بھی منسوخ کردی۔ اسامہ بن لادن نے سوڈان میں بھی عرب نوجوانوں میں تحریک پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں سے رابطے قائم رکھے۔ سوڈانی حکومت کو اسامہ بن لادن کی سوڈان میں موجودگی پر شدید امریکی دبائو کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اسی دوران طالبان نے افغانستان کے 60 فی صد علاقے میں اپنے قدم جمالیے اور ایک مستحکم حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اسامہ افغانستان چلے آئے جہاں طالبان کے امیر ملا محمد عمر کی جانب سے انہیں امارات اسلامیہ افغانستان میں سرکاری پناہ حاصل ہوگئی۔ اب اسامہ نے اپنی تنظیم القاعدہ کو دوبارہ منظم کیا۔ 1997ء میں امریکی صدر بل کلنٹن نے طالبان پر اسامہ کو حوالے کرنے کے لیے دبائو ڈالنا شروع کیا مگر طالبان نے امریکا کے کسی دبائو میں آنے سے انکار کردیا اور اپنے مہمان کو امریکا کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا جس کے بعد طالبان اور امریکا میں ٹھن گئی۔ 1998ء میں امریکا نے افغانستان اور سوڈان پر کروز میزائل سے حملے کیے۔ اس میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ حملے اسامہ بن لادن کے کیمپ کو نشانہ بنانے اور اسامہ بن لادن کو مارنے کے لیے کیے گئے تھے۔ لیکن ان حملوں سے اسامہ بن لادن انتہائی مقبول ہوئے اور انہیں امریکی جارحیت کے سامنے واحد مدمقابل کے طور پر جانا جانے لگا۔
11 ستمبر 2001ء جس کو نائن الیون کے
طور پر مشہور کیا گیا اس کے محض ایک گھنٹے بعد ہی امریکا نے اس کا الزام ہزاروں میل دور بیٹھے اسامہ بن لادن پر لگادیا۔ اسامہ بن لادن نے اس واقعے میں ملوث ہونے سے واضح انکار کیا۔ امریکا نے اس واقعے سے ساری دنیا کی ہمدردی سمیٹنے کی کامیاب کوشش کی اور محض ایک ماہ کے اندر اقوام متحدہ کی منظوری کے بعد چالیس دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر دنیا کے کمزور ترین اور پسماندہ ترین ملک افغانستان پر دھاوا بول دیا۔ حالاں کہ نائن الیون میں افغانستان کا ایک شہری بھی ملوث نہ ہونے کا اعتراف موجود تھا اور ہے۔ افغانستان میں کارپٹ بمباری کرنے اور تباہی پھیلانے کے باوجود امریکی حکومت اسامہ بن لادن کی گرفتاری یا قتل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اسامہ بن لادن کی زندگی کی طرح موت بھی ساری دنیا کے لیے ایک معمہ ہی بنی رہی۔ آخر امریکی حکومت نے اس معمے کو سر بہ مہر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ یکم مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی فوجیوں نے ایک آپریشن کیا اور اسامہ بن لادن کو مارنے اور اس کی لاش ساتھ لے جانے کی خبر جاری کی۔ اسامہ بن لادن کی لاش سمندر میں بہا دینے کا اعلان کیا مگر اسامہ بن لادن کی لاش کی تصویر کبھی منظر عام پر نہیں آئی۔ مشہور امریکی صحافی ’’سیمور ہرش‘‘ نے اسامہ کی اس حملے میں موت پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی روداد جھوٹ پر مبنی ہے۔ سیمور ہرش کے مطابق ایبٹ آباد آپریشن فوج اور آئی ایس آئی کی مرضی اور پیشگی منظوری سے ہوا تھا۔ اس وقت فوج کے سربراہ اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ شجاع پاشا تھے۔ سیمور ہرش کے مطابق ان دونوں میں یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنے عوام کے سامنے اعتراف کرسکیں جب کہ اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور صدر آصف علی زرداری اس آپریشن پر پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ایک دوسرے کو اور امریکی حکام کو مبارکبادیں دے رہے تھے۔ سیمور ہرش کی کئی باتیں واقعی قابل غور تھیں۔ پہلی یہ کہ اگر
کیانی اور پاشا ایک گھنٹے کے اس آپریشن سے واقعی لاعلم تھے تو یہ بہت ہی خطرناک بات تھی اور اس پر بھی یہ کہ اگر علم ہونے پر بھی کیانی صاحب نے صرف اِدھر اُدھر فون گھمانے پر ہی اکتفا کیا۔ فضائیہ کو حرکت کا حکم نہ دیا؟ پھر ایبٹ آباد کے اس علاقے میں بلیک آئوٹ یعنی بجلی کی مکمل بندش کا مقصد کیا تھا؟
یہ سوال ایسے ہیں کہ اس کا جواب نہ پاکستانی قوم کو ملا اور نہ ہی آزاد میڈیا ڈھونڈ پایا۔ سوالات تو اور بھی ہیں خاص طور سے 9/11 کے بارے میں جن کے جواب ڈھونڈ لانے کی کسی میں ہمت ہی نہیں ہے۔ مثلاً 9/11 میں طیارے دو ٹاوروں سے ٹکرائے لیکن تیسرا ٹاور بھی تباہ ہوگیا حالاں کہ اس سے کوئی طیارہ نہیں ٹکرایا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سرکاری بیان کہ تیسرا ٹاور آگ لگنے سے گرا غلط ہے۔ یہ ٹاور اسٹیل کے فریم سے بنا ہوا تھا اور یہ دنیا کی اسٹیل کے فریم والی پہلی بلڈنگ ہے جو آگ سے گر گئی؟
پھر حادثے کی جگہ سے طیارے یا مسافروں کی باقیات بالکل نہیں ملیں۔ امریکی بیان یہ ہے کہ جہاز ٹکراتے ہی بھاپ بن کر سب کچھ اڑ گیا حالاں کہ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ امریکی ڈیفنس سیکرٹری ڈونلڈ رمز فیلڈ نے 10 ستمبر 2001ء میں اعتراف کیا تھا کہ ڈیفنس بجٹ میں 2300 ارب کا گھپلا موجود ہے جس کا سراغ نہیں لگایا جاسکتا۔ اگلے دن صبح طیارے پنٹا گون کی عمارت کے عین اسی حصے سے جا ٹکرائے جہاں بجٹ اینا لسٹ کے دفاتر تھے۔ پھر طیارے کی ایک پر سے دوسرے پر تک کی چوڑائی 38 میٹر تھی مگر ٹکر کے بعد پنٹاگون کی بلڈنگ میں ہونے والا سوراخ صرف 6 میٹر چوڑا تھا۔ یہ بھی عجیب اتفاق تھا کہ جب اغوا شدہ طیارے اپنے اہداف پر ٹکرانے والے تھے اس وقت پنٹا گون نے ایک ’’وار گیم‘‘ چلایا ہوا تھا جس کی وجہ سے ائرٹریفک کنٹرولرز کو اپنے ریڈار اسکرین پر مغالطہ ہوتا رہا۔ تاریخ کے یہ دو اتفاق حیران کن ہیں کہ پاکستانی ریڈار ایبٹ آباد پر حملہ آور امریکی طیارے نہ دیکھ سکے اور امریکی ریڈار نائن الیون کے دن اغوا شدہ حملہ کرنے والے طیارے نہ دیکھ سکے۔