شکایت کی پٹی

378

شرَفِ عالم
میں: تم نے ایک گفتگو میں شکر اور صبر کی بات کی تھی، مگر اس دن انسان کی ایک اور فطری عادت، شکایت پر تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی اورحضرتِ انسان تو ہر دور میں بس شکوے شکایت ہی کرتا رہا ہے۔ اور اس معاملے میں اس نے بندوں کیا خدا کے سامنے بھی شکایتوں کا ایک دفتر کھول رکھا ہے۔
وہ: اصل میں یہ معاملہ بھی شکر سے ہی جڑا ہوا ہے۔ مجھے اس موقع پر رابعہ بصری کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ ’’ایک جوان شخص ماتھے پر پٹی باندھے بصرہ کی کسی سڑک سے گزر رہا تھا، رابعہ بصری کی نظر پڑی تو اس سے پوچھا ایسا کیا ہوا جو سر پہ پٹی باندھے گھوم رہے ہو؟ نوجوان بولا سر میں بہت درد ہے اس لیے باندھی۔ رابعہ بصری نے اسے اپنی لاٹھی دکھاتے ہوئے کہا کہ جوان جہان آدمی ہو، خدا نے تمہیں ایک صحت مند زندگی دی ہے، بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، ساری زندگی میں ایک بار بھی شکرانے کی پٹی تو نظر نہ آئی تیرے ماتھے پر، ذرا سر میں درد کیا ہوا، شکایت کی پٹی باندھے دنیا کو دکھاتا پھر رہا ہے‘‘۔ غور کرو تو ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کے ماتھے پر شکایت کی پٹی نہ ہو۔
میں: پٹی نہیں یہاں تو ہر شخص شکایتوں کی پوٹلی سر پہ لیے گھوم رہا ہے۔ ملازم کو ساہوکار سے شکایت، ساہوکار کو سرکار سے شکایت، ماں باپ کو بچوں سے شکایت، بچوں کو ماں باپ سے شکایت، دوست، عزیز رشتہ دار، پڑوسی، محلہ دار سب ہی ایک دوسرے سے شکوہ بہ لب ہیں۔
وہ: میرے خیال سے شکایت کا معاملہ حاجت سے جڑا ہوا ہے۔ جب انسان کی حاجت پوری ہوجاتی ہے تو وہ خوش ہوجاتا ہے اور جب پوری نہیں ہوتی، شکوے شکایتوں پر اُتر آتا ہے۔ اور دنیا کا کون سا انسان ہے جس کی کوئی خواہش اور حاجت نہ ہو۔ لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان کی ہر خواہش ہر ضرورت پوری ہوجائے۔ بقو ل غالبؔ
کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی
میں: لیکن میرے دوست ہر خواہش تو بہت دور کی بات ہے یہاں تو کوئی حاجت کوئی ضرورت پوری ہوتی نظر نہیں آرہی، اسی لیے تو ہر طرف شکایتوںکے انبار لگے ہوئے ہیں۔ بس شکایت کرنے کے اندازمیں فرق ہے۔ کوئی اپنی شکایت لکھ کر جمع کراتا ہے، کسی کو براہ راست بات کیے بغیر تسلی نہیں ہوتی توکوئی سڑکوں پر غل غپاڑہ مچاتا ہے۔
وہ: مگر مشکل یہ ہے کہ آج کی نام نہاد مہذب دنیا کو سڑکوں پر لگایا جانے والا نعرۂ حق ہضم نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ان کے بقول دنیا اب زیادہ Sophisticated یعنی نفاست پسند ہوگئی ہے، لہٰذا قرارداد پیش کریں، لمبی چوڑی تقریریں کریں، مذاکروں کا میلہ لگائیں، یادداشت جمع کرائیں اور کبھی سڑک پر آنے کا دل چاہے تو بس ہاتھوں میں پلے کارڈز لے کر فٹ پاتھ پر ایک طرف کھڑے ہوجائیں۔ مگر سڑکوں پر نکل کر نعرہ ٔ حق بلند نہ کریں کیوں کہ یہ اس سماج کی طبع آزاد پر گراں گزرتا ہے۔ بقول شاعرؔ
ہمارا نعرۂ حق سن کے اس نے فرمایا
یہی وہ لوگ ہیں جو راہ پر نہیں آتے
میں: اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ مظلوم اپنے اوپر ہونے والی ظلم وزیادتی پر نہ فریاد کرے اور نہ اپنے جذبات دل کھول کر بیان کرے جب کہ وہ سو فی صد حق پر بھی ہو۔ یہ بھلا کہاں کا انصاف ہوا؟
وہ: چلو پھر تم ہی بتائو، یہ کہاں کا انصاف ہے، یہ رسول ؐ سے کیسی محبت ہے کہ اشتعال میں آکر اپنے ہی محافظوں کو موت کا پروانہ تھما دیا جائے۔ جو کوئی غیر نہیں ہمارے مسلمان بھائی تھے۔
میں: لیکن ان محافظوں نے بھی کون سی کسر چھوڑی، انہوں نے بھی تو اندھا دھند گولیاں برسا کرکئی گھروں کے چراغ گل کردیے۔
وہ: میرے بھائی میں ان کی وکالت نہیں کررہا مگر تمہیں یہ ماننا پڑے گا کہ ظلم وزیادتی دونوں طرف سے ہوئی ہے۔ اچھا مجھے ایک سوال کا جواب دو میں نے آج تک اس ملک میں سود کے خلاف کوئی دھرنا نہیں دیکھا، جوش ایمانی سے بھرپور ایک ایسی تحریک نہیں دیکھی، جو عریانی اور فحاشی کو لگام دینے کے لیے چلائی گئی ہو، اور اس کے نتیجے میں اس گروہ یا جماعت نے حکومت وقت کو مذاکرات پر مجبور کیا ہو۔ یہ کیسی عقیدت کیسی محبت ہے جو مجھے ایک وقتی جوش اور جذبۂ ایمانی کی بنیاد پر سڑکوں پر لے آتی ہے، مگر رحمت اللعالمین نبی اکرمؐ کے بتائے ہوئے نظام حیات کو اپنی زندگی میں عملی طور پر اختیار کرنے پر آمادہ نہیں کرتی۔ میرے ماتھے پر تو شکایت کی یہ پٹی جانے کب سے بندھی ہوئی۔
میں: تم نے تو مجھے مخمصے میں ڈال دیا
وہ: اس گفتگو کو ان شاء اللہ آئندہ نشست میں مکمل کریں گے۔