کیوں پرانا ہوا ناکام ذرا دیکھ تو لو

394

 

وزیراعظم عمران خان نے سکھر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سندھ کو نظرانداز کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’’پنجاب میں مافیا سے مقابلہ تھا سندھ پر توجہ نہیں دے سکا۔ کراچی کے قریب نیا شہر بسانے کا منصوبہ بنارہے ہیں‘‘۔ اس موقع پر جاوید اختر کی نظم ’’جینا مشکل ہے کہ آسان ذرادیکھ تو لو‘‘سے چند اشعار:
جینا مشکل ہے کہ آسان ذرا دیکھ تو لو
لوگ لگتے ہیں پریشان ذرا دیکھ تو لو
پھر مقرر کوئی سرگرم سر منبر ہے
کس کے ہے قتل کا سامان ذرا دیکھ تو لو
ان چراغوںکے تلے ایسا اندھیرا کیوں ہے
تم بھی رہ جائو گے حیران ذرا دیکھ تو لو
یہ نیا شہر تو ہے خوب بسایا تم نے
کیوں پرانا ہوا ویران ذرا دیکھ تو لو
گزشتہ برس وزیراعظم عمران خان نے نیا لاہور بسانے کا اعلان کیا تھا۔ نیا لاہور راوی کنارے بسانے کا منصوبہ تھا۔ اس منصوبے کا تو پتا نہیں کیا بنا۔ اب نیا کراچی زیرغور ہے۔ عمران خان نے کبھی وزیراعظم ہائوس کو بھی یونی ورسٹی بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ زرداری صاحب نے بھی کبھی اندرون سندھ ایک نیا ماڈرن شہر بنانے کا ارادہ ظا ہر کیا تھا۔ زرداری صاحب کو یاد بھی نہ ہوگا۔ ہمارے حکمران بڑے بڑے منصوبوں کے اعلان کے شائق ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس طرح وہ اقبال کے ان اہل نظر میں شمار ہونے لگیں گے جو نئی بستیاں آباد کرتے ہیں۔ نیا شہر بسانے کے اعلان سے پہلے بہتر ہوتا عمران خان منہ اندھیرے گھر سے نکلنے اور مایوس لوٹنے والے ان مزدوروں پر بھی نظر کر لیتے جن کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ وہ غیور مزدور جو سارا سارا دن دھوپ میں بیٹھنا برداشت کرتے تھے لیکن کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے اب لنگر خانوں کی قطاروں میں لگنے پر مجبور ہیں۔ کراچی اب مزدوروں اور محنت کشوں سے زیادہ محتاجوں کا شہر بنتا جارہا ہے۔
وہ جو اس سسٹم کو اچھی طرح جانتا ہے، فائلوں کو رشوت کے پہیے لگانے پر یقین رکھتا ہے۔ اس نے بھی سپر ہائی وے کے نزدیک ایک نیا کراچی بسایا ہے۔ رہائش تو کیا غریب جس کے پاس سے نہیں گزرسکتے۔ اس بستی کے بارے میں شنید ہے کہ اردگرد کے گوٹھوںکے مکینوں سے دھونس دھاندلی کے ذریعے زرداری صاحب کے بہادر بچے نے زمین خالی کراکے ان کی خدمت میں اور انہوں نے ملک ریاض کی خدمت میں پیش کی تھی۔ اس وقت ایس ایس پی رائوانوار کی سرپرستی میں ملیر پولیس گوٹھوں پر چھاپے مارتی تھی اور مقامی لوگوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں گرفتار کر لیا جاتا تھا۔ دوسری جانب بحریہ ٹائون کے افسر جو ایک ریٹائرڈ کرنل بھی تھے مسلسل انہیں ڈراتے اور دھمکیاں دیتے تھے۔ کراچی کے توحید کمرشل ایریا میں رئیل اسٹیٹ ایجنٹس بحریہ ٹائون کی ناجائز زمین کے لیے رجسٹریشن فارم ایسے فروخت کرتے تھے جیسے کوئی گرم کیک ہو۔ بحریہ ٹائون کا نیا شہر بسانے کے لیے ریاستی ادارے کس طرح اپنے شہریوں کے تحفظ سے کنارہ کش ہوئے تھے اس پر کم ہی بات کی گئی ہے۔ اب کراچی کا نیا شہر بسانے کے لیے، اگر بنایا گیا، پرانے شہر کے باسیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اللہ بہتر جانتا ہے یا پھر قبضہ مافیا۔
کراچی شہر پہلی محبت کی طرح بے مثل ہے۔ ایک کیف ہے۔ آپ کہیں بھی چلے جائیں کراچی کی مٹی آواز دیتی ہے۔ جانے ہی کب دیتی ہے، جو کراچی آیا کراچی کا ہوگیا، کراچی کی مٹی قدموں کو پکڑ لیتی ہے۔ کراچی ایک معمے کا نام بھی ہے۔ کراچی میں جو کچھ ہوتا رہے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا۔ کوئی سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔ کبھی کراچی بہت سجا سنورا رہتا تھا۔ دلہن کی طرح۔ پھر ایم کیو ایم نے مہندی کو خون میں بدل دیا۔ اس زمانے میں کراچی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ کسی کو فکر ہی نہیں تھی کراچی کیوں برباد ہورہا ہے۔ قتل وغارت کی قوتیں آزادی سے شکار کرتی تھیں۔ وہ شہر جس کی وسعت حیرت انگیز تھی، ریاست کی معیشت کی شہ رگ، خزانے کو سب سے زیادہ رقم دینے والا۔ اس کی بدامنی ضرب المثل بن گئی لیکن کسی کو پروا نہیں تھی۔ کراچی کا نام تب ہی زبانوں پر آتا ہے جب کسی کو اس کی ضرورت ہو۔ اب نجانے عمران خان کو کیا ضرورت پیش آئی ہے کہ کراچی میں ایک نیا شہر بسانے کی بات کر گئے۔ پتا نہیں یہ بات انہوں نے مدہوشی میں کہی ہے یا ہوش میں۔ ہر دو صورتوں میں چند دن بعد انہیں یاد نہیں رہے گا۔ کراچی کے ساتھ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔
ایک وقت تھا کراچی حکومتوں کو متزلزل کرتا تھا، بدلتا تھا، حالات کو نیا موڑ دیتا تھا۔ اب کراچی کا یہ کردار ختم کردیا گیا ہے۔ کراچی سے محبت رکھنے والی جماعتوںکے کچلنے کا وہ سامان کیا گیا، ان کے نرخرے پر گھٹنا رکھ کر شہر کو بھائیوں کے اس طرح حوالے کیا گیا کہ کراچی اپاہج بنتا چلا گیا۔ جرائم، تشدد اور جنون کا کوڑے دان۔ کراچی مختلف طبقات، مختلف ثقافتوں کا شہر ہے جو مل جل کررہتی ہیں۔ کراچی کی ترقی میں سب کا حصہ ہے۔ مہاجر، پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان اور نجانے کون کون، ان کے خوابوں کے حصول کا ناٹک سبھی نے رچایا لیکن کسی نے ان کو کچھ نہیں دیا۔
سرجانی سے چلیں تو نمائش اور کیپری سینما تک نجانے کب سے کھدائیاں ہورہی ہیں، گرین بیلٹ ختم کرکے سیمنٹ اور لوہے کی سڑکیں، فلائی اوور اور نجانے کیا کیا اہتمام کیے جارہے ہیں لیکن اورنج یا گرین بسیں کراچی کے نصیب میں نہیں۔ بسیں اور منی بسیں جو کراچی کی پہچان ہوا کرتی تھیں اب وہ بھی کم ہوتی جارہی ہیں۔ چائنا سے درآمد رکشوں اور موٹرسائیکلوں نے سڑکوں کو بھر دیا ہے۔ ناگن چورنگی سے بورڈ آفس تک لب سڑک دونوں اطراف بڑے بڑے بنگلوں کو توڑ توڑ کر چھ سات آٹھ منزلہ چھوٹی چھوٹی رہائشی عمارتوں کے پلازے بنادیے گئے ہیں جہاں فلیٹوں کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرتی ہیں۔ اسی طرح کراچی میں گلی محلوں میں بکھری چھوٹی چھوٹی دکانیںاور بازار بھی ختم ہوتے جارہے ہیں۔ ان کی جگہ شاپنگ سینٹروں نے لے لی ہے جہاں آٹا دالیں چاول، گھی تیل، چینی اور ضرور ت کی تقریباً تمام اشیا مختلف پیکنگز اور تھیلوں تھیلیوں میں دستیاب ہوتی ہیں۔ کم ہی چیزوں پر قیمتیں درج ہوتی ہیں۔ لیکن خریدار شاد ہوتے ہیں کہ سستی اور معیاری اشیا خرید رہے ہیں۔ کراچی رفتہ رفتہ غیر محسوس طریقے سے تبدیل ہورہا ہے۔
جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے کراچی وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا ہے۔ کبھی صوبائی انتظامیہ اپنی ناکامی کی ذمے دار وفاقی حکومت کو قرار دیتی ہے کبھی وفاقی حکومت صوبائی حکومت کو۔ معاملہ زیادہ گڑ بڑ ہوتا ہے توکراچی کو وفاق کی تحویل میں دینے کی باتیں بھی سننے میں آتی ہیں۔ بہرحال باتیں کچھ بھی ہوں 1977ء سے کراچی کو پاکستان کی سیاست سے بے دخل کردیا گیا ہے۔ کراچی کے شہری اپنے شہر کو کوئی بھی رخ دینے کی قوت سے محروم کردیے گئے ہیں۔ کراچی کے شہری کسی منصوبے کا حصہ نہیں۔ کراچی کی افزائشی قوت کو پنپنے کا موقع دیجیے۔ کراچی اپنی نشونما خود ہی کرنے، بڑھنے اور نئے شہر بسانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کراچی میں نئے شہر کی تعمیر کے لطیفے پر معطل سوچوں کے اظہار کا موقع مل گیا۔ حکمرانوں سے یہی گزارش ہے، کراچی میں نیا شہر تعمیر کرنے کے دعووں سے پہلے ’’کیوں پرانا ہوا ناکام ذرا دیکھ تو لو‘‘۔