اسرائیل میں انتخابات لاحاصل ، سیاسی تعطل بر قرار

129

 

 

 

مقبوضہ بیت المقدس (رپورٹ: منیب حسین) اسرائیل میں گزشتہ 2 سال سے سیاسی بحران جاری ہے، جس کے نتیجے میں اس عرصے کے دوران 4 عام انتخابات ہوچکے ہیں۔ تازہ ترین انتخابات کا انعقاد منگل کے روز کیا گیا تھا، جس کا مقصد ملک میں جاری سیاسی تعطل کا خاتمہ تھا، تاہم ایسا نہ ہوسکا۔ اب تک کی رپورٹوں کے مطابق 12 سال سے برسراقتدار وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ پارٹی اگرچہ سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے، تاہم وہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اپنی اتحادی جماعتوں شاس، یہدوہ ہتوراہ اور یسرائیل ہوم کے ساتھ مل کر بھی حکومت بنانے کے قابل نہیں ہے۔ کیوں کہ اسرائیلی پارلیمان میں 120 نشستیں ہیں اور حکومت سازی کے لیے 61 نشستوں کی سادہ اکثریت حاصل کرنا ضروری ہے، جب کہ اس اتحاد کو 59 نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ اس کے برخلاف بائیں بازو اور مرکزی سوچ کی حامل جماعتوں کو 61 نشستیں ملنے کا امکان تو ہے، لیکن ان کے درمیان شدید نظریاتی اختلافات کے باعث وہ اتحادی حکومت نہیں بنا سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے بدھ کے روز اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں اپنی حکومت نہ بننے کی صورت میں پانچویں بار انتخابات کرائے جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ رابطے شروع کردیے ہیں۔ خیال رہے کہ اسرائیل میں سیاسی بحران حل نہ ہونے کا فائدہ بھی مسلسل نیتن یاہو ہی کو ہو رہا ہے۔ دوسری جانب اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے کہا ہے کہ اسرائیلی پارلیمان کے انتخابات میں انتہا پسندوں اور سخت گیر جماعتوں کا آپس میں مقابلہ تھا۔ حماس کے ترجمان حازم قاسم نے مجوزہ فلسطینی انتخابات سے متعلق کہا کہ ہمیں قضیہ فلسطین کے دفاع، اپنے حقوق کے حصول اور آزادی کے لیے ایک ایسے منظم ومتحد سیاسی نظام کی ضرورت ہے، جو فلسطینی قوم کی آزادی کے لیے مزاحمت کے اصول پر کام کرے۔