پاکستان اسلام کے لئے بنا تھا

379

1941؁ء کی بات ہے جب قائد اعظم محمد علی جناح مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ مدراس میں شرکت کرکے واپس جاتے ہوئے ایک قصبے سے گزر رہے تھے ،قصبے کے لوگ اپنے ہر دل عزیزقائد کے استقبال میں سڑک کی دونوں جانب جمع تھے اور والہانہ انداز میں ’’پاکستان زندہ باد، قائد اعظم زندہ باد ‘‘ کے نعرے لگارہے تھے اِس استقبالی ہجوم میں ایک آٹھ نو برس کا بچہ بھی شامل تھا جس نے اپنے جسم پر صرف ایک لنگی پہن رکھی تھی ، فرط مسرت اور جوش سے اُس کا چہرہ تمتمارہا تھا اوروہ بھی لوگوں کے ساتھ زور زور سے ’’پاکستان زندہ باد،پاکستان زندہ باد ‘‘ کے نعرے لگارہا تھا،قائد اعظم محمد علی جناح نے بچے کے جوش و جذبے کو محسوس کرتے ہوئے گاڑی روکنے کا حکم دیا اور بچے کو اپنے پاس بلوایا ،یہ صورتحال دیکھ کر بچہ گھبراگیا قائد اعظم نے بچے کو پیار کیا اور اسے حوصلہ دیا جس سے بچے کی گھبراہٹ میں کمی واقع ہوئی ،آپ نے بچے سے پوچھا ’’تم پاکستان کا مطلب کیا سمجھتے ہو؟ لڑکے نے قائد اعظم کو جواب دیا ’’پاکستان کا مطلب تو آپ بہتر جانتے ہیں ہم تو صرف اتنا سمجھتے ہیں کہ جہاں مسلمانوں کی حکومت وہ ’’پاکستان‘‘ اور جہاں ہندوؤں کی حکومت وہ ’’ہندوستان‘‘اُس وقت قائد اعظم کے ساتھ صحافیوں کا قافلہ بھی سفر کررہاتھا آپ نے فوراً صحافیوں کو مخاطب کرکے کہا کہ ’’جاؤ‘ مسڑ گاندھی (جو 23مارچ 1940؁ء کو لاہور میں قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد سے مسلسل کہہ رہے تھے کہ وہ پاکستان کا مطلب نہیں سمجھ سکے )کو بتادو کہ مسلمانوں کا آٹھ برس کا بچہ بھی پاکستان کا مطلب سمجھتا ہے اگر وہ اب بھی نہیں سمجھے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سمجھتے خوب ہیں لیکن اعتراف کرنا نہیں چاہتے‘‘ قرارداد پاکستان نے بچے بچے کے دل و دماغ میں ایک ہی بات نقش کردی تھی کہ ہم ایک الگ قوم ہیں ایک ایسی قوم جس کا رہن سہن ،تہذیب و تمدن ،معاشی اور معاشرتی ضروریات عبادات اور عبادت گاہیں غرضیکہ زندگی کے تمام معاملات نہ صرف ہندوؤں سے الگ ہیں بلکہ اُن کے رسم و رواج اور روایات کے بھی یکسر خلاف ہیں ۔
23مارچ 1940؁ء کو لاہور کے منٹو پارک(مینار پاکستان) میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 27ویں سالانہ اجلاس جس میں لاکھوں کی تعدا د میں مسلماناں ہند شریک تھے، شیر بنگال مولوی فضل حق نے قرار داد لاہور(جو بعد میں قرار داد پاکستان کے نام سے موسوم ہوئی) پیش کی تھی اورجسے تمام حاضرین جلسہ نے اتفاق رائے سے منظور کیا تھا اِس قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ’’ہندوستان کے مسلمان صرف اُس دستوری ڈھانچے کو اِس ملک میں قابل عمل سمجھیں گے جسے مرتب کرتے ہوئے ذیل کے اصول اور اُمور کو پیش نظر رکھا جائے گا ،جغرافیائی طورپر متصّلہ وحدتوں کے صوبے اِس طرح وضع کئے جائیں کہ جو ضروری علاقائی ردّو بدل کے ساتھ جن میں بلحاظ تعداد زیادہ ہیں جیسے کہ شمال مغربی زون ہیں انہیں باہم ملاکر ہندوستان کے اندر خود مختار آزاد مملکتیں بنادی جائیں ،جن میں یہ بنائے گئے یونٹ آزاد اور خودمختار ہوں‘‘ اِس اجلاس میں قرار داد لاہور کی منظوری کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر اور مسلمانان برصغیر کے متفقہ قائد قائد اعظم محمد علی جناح نے تاریخ ساز خطبہ ٔ صدارت پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’لفظ قوم کی تعریف کی رو سے مسلمان ایک قوم ہیں اور اس لحاظ سے ان کا اپنا علیحد ہ وطن ،اپنا علاقہ اور اپنی مملکت ہونی چاہئے……میں کہتا ہوں کہ جب تک آپ اپنے نصب العین کو اپنے خون میں رچابسا نہیں لیتے جب تک اپنی تمام آسائشات ترک کرنے کیلئے تیار نہ ہوں گے ،جب تک اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے آمادہ نہ ہوں گے ،جب تک اپنے لوگوں کیلئے بے غرضانہ ،مخلصانہ اور صدق دلانہ کام کرنے کیلئے مستعد نہ ہوں گے اُس وقت تک آپ کو کبھی احساس نہ ہوگا،نہ آپ اپنے نصب العین کو پہچان سکیں گے ،دوستو ! اسی لیے میںچاہتا ہوں کہ پہلے آپ قطعی طور پر ارادہ کرلیجئے پھر تدبیریں سوچئے ،اپنے لوگ بیدار ہوچکے ہیں انہیں صرف آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے ،اسلام کے جانثاروں کی طرح آگے نکل بڑ ھیں ،مجھے یقین ہے کہ آپ ایک ایسی قوت بن جائیں گے جسے دوسروں کے لئے قبول کرنے کے سوا چارہ نہ ہوگا‘‘،قائد اعظم محمد علی جناح کا یہ تاریخی خطاب اور مولوی فضل حق کی پیش کردہ قرار داد لاہور مسلمانان برصغیر کی منزل کیلئے نشان راہ ثابت ہوئی،مسلم لیگ نے اِس اجلاس کے دوران مسلمانوں کیلئے جو نصب العین متعین کیا پوری قوم اُس کے حصول کیلئے سرگرم عمل ہوگئی ، پاکستان کے نعرے نے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونگ دی اور وہ مسلم لیگ کے جھنڈے تلے متحد و منظم ہوکرقائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں 14اگست 1947؁ء کی صبح آزادی تک آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں صرف سات سال کے مختصر عرصے میں اپنے دونوں دشمنوں انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے آزادی حاصل کرلی اور 14اگست 1947؁ء کو تاریخ عالم میں دنیا کی سب سے پہلی اسلامی نظریاتی مملکت پاکستان کے نام سے معرضِ وجود میں آگئی۔1857؁ء کی جنگ آزادی سے لے کرتخلیق ِ پاکستان تک مسلمان برصغیر نے کئی ادوار دیکھے تھے مگر 23مارچ 1940؁ء کا دن اُن کے تصورات و خوابوں کی تعبیر کا پیغام لے کر آیا،قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا تھا کہ’’پاکستان اسلامی اقدار کی تجربہ گاہ بننے والا ہے‘‘ قائد اعظم کے نزدیک پاکستان کا یہ تصوردراصل وہی ’’نظریہ اسلام ‘‘ تھا جس کی اساس چودہ سو سال پہلے ریاست مدینہ قائم کرکے پیغمبر اسلام ﷺ نے رکھی تھی،23مارچ 1940؁ء کی قرار داد پاکستان نے ایک آزاد و خودمختار سرزمین کے حصول کی جدو جہد اور مستقبل کی اسلامی ریاست کے نظام حکومت کے خد وخال واضح کرتے ہوئے چار اہم بنیادی اصول و محرکات بھی متعین کئے تھے ،اِن میںسب سے پہلا اہم ترین محرک اسلامی حکومت کا قیام تھا ،ایک ایسی اسلامی حکومت جہاں اسلام ہر شعبہ زندگی میں قوت محرکہ کے طور پر نافذ و غالب ہو،جہاں ظلم کی بیخ کنی ہو اور عدل کی حکمرانی کا قانون بلا امتیاز رنگ و نسل جاری و ساری ہو،اور جہاں شورائی جمہوریت کا نظام نافذ ہو اور ایوان نمائندگان کا چناؤ اُن کی صلاحیت کارکردگی اور تقویٰ کی بنیاد پر کیا جائے، قرار داد پاکستان کی دوسری بنیادی اساس ایسی اسلامی قومیت تھی جس کی شناخت نہ وطن تھی اور نہ ہی رنگ و نسل اور زبان و علاقہ ،بقول اقبال ؔ
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے