زندگی کاہے کو ہے

395

وہ: آج مجھے فانی بدایونی کا یہ شعر صبح سے یاد آرہا ہے
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے، خواب ہے دیوانے کا
میں: اس شعر سے مجھے یاد آیاگزشتہ گفتگو میں تم نے کہا تھا کہ تعلیم کا بنیادی مقصد زندگی گزارنے کا طریقہ اور شعور حاصل کرنا ہے، یعنی زندگی کیسے گزاری جائے؟ مگر جب میرے اپنے وجود کی تخلیق میں میری مرضی شامل نہیں، تو کیسے گزارنے کا سوال ثانوی ہے، زیادہ اہم یہ ہے کہ میں زندگی گزاروں کیوں؟ اور دوسری بات یہ کہ یہ زندگی میری اپنی ہے تو میں جیسے چاہے اسے جیوں، کسی دوسرے کی مرضی اورہدایت کے مطابق اپنی زندگی کیوں گزاروں؟
وہ: تمہاری بات میں وزن ہے مگر مشکل یہ ہے کہ یہ سوچنے کا اختیار تو انسان کے پاس ہے ہی نہیںکہ وہ زندگی کیوں گزارے؟ جیسا کہ تم نے ابھی کہا کہ انسان کی تخلیق میں اس کی اپنی منشا کا کوئی عمل دخل نہیں، اور یہ بات اس کے مخلوق ہونے پر ازخود ایک دلیل ہے۔ یعنی انسان کی پیدائش اور اس کا وجود برسوں سے جاری ایک طبعی عمل کا نتیجہ ہونے کے بجائے ایک انتہائی عظیم الشان اور بے مثل خالق کی تخلیق ہے۔ اور جسے خلق کیا جائے یا بنایا جائے اسے یہ پوچھنے کا اختیار دیا ہی نہیں جاتا کہ اسے کیوں بنایا؟ وہ خدا کی کوئی تخلیق ہو یا انسان کا بنایا ہوا کوئی بھی اوزار، آلہ یا ایجاد۔ یہ صرف بنانے والے کا اختیار ہے کہ کیا بنایا جائے، کیسے بنایا جائے اور کیوں بنایا جائے۔ پھر وہ تخلیق اور ایجاد اس کے بنائے ہوئے طریقوں اور ضابطوں کی پابند ہوتی ہے۔ اور اگر اس کے استعمال میں مجوزہ اصول وضوابط کا خیال نہ رکھا جائے تو نتیجہ صرف اور صرف تخریب اور نقصان ہی کی شکل میں نکلتا ہے۔
میں: لیکن خدا نے اپنی تمام تر تخلیقات میں یہ اختیار صرف انسان کو دیا ہے کہ وہ اس سے یہ سوال پوچھ سکے کہ مجھے کیوں بنایا؟ مجھے زندگی کیوں دی؟
وہ: میرے بھائی کس کی مجال ہے جو خدا کی جناب میں اپنی زبان کھول سکے اصل میں یہ سوال انسان کے ذہن میں اسی وقت ابھرتا ہے جب وہ اپنے مقصد ِ وجود سے رُوگردانی کرے اور اپنے خالق کے مقابلے میں خود کو برتر سمجھنے لگے۔ یہ امر بالکل ایسے ہی ہے جیسے نوکر اپنے مالک کا حکم بجالانے کے بجائے یہ کہے کہ میں یہ کام کیوں کروں، مجھے یہ ذمے داری کیوں دی؟
میں: تمہیں نہیں لگتا کہ انسان کے ساتھ یہ سب کچھ جبر کی صورت میں وقوع پزیر ہورہا ہے؟ اور شاید اسی لیے آج کا انسان زیادہ شدت سے یہ سوال کرتا دکھائی دیتا ہے، کہ میں اس دنیا میں کیوں ہوں؟
وہ: یہ سوال تو انسان کے ذہن میں ازل سے ہے اور شاید ابد تک رہے گا۔ ہم اس بات کو مسئلہ جبر وقدر کی گتھیوں میں الجھانے کے بجائے قرآن کی اس آیت کے مطابق سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، جس میں تمام روحوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یک زبان ہوکر اسے اپنا ربّ ماننے کا اقرار کیا تھا۔ کیوںکہ خدا کو بندے کی آزمائش مقصود تھی، اس لیے اُس اقرار کو ہر انسان کے دل ودماغ سے مٹادیا مگر الست بربکم کا سبق اس کے تحت الشعور میں موجود رہا، جب ہی تو ہر دور کے انسان نے اس کے پیغمبروں کے ذریعے پہنچنے والے پیغام پر لبیک کہا اور جنہوں نے نہیں کہا تو انہوں نے خدا کا نہیں، گویا خود اپنے وجود کا انکار کیا۔ جب یہ پکار عمرؓ کے کان میں پڑتی ہے تو الست بربکم کا بھولا ہوا سبق یاد آجاتا ہے، من کی دنیا ایک ہی ساعت میں بدل جاتی ہے اور زندگی سراپا بندگی بن جاتی ہے۔ بلالؓ کے سینے پر پتھر کی بھاری بھاری سلیں رکھنے کے باوجود زبان سے سوائے احد احد کے دوسرا کوئی لفظ نہیں نکلتا۔ اور بعضے ایسے بھی گزرے ہیں جن کے سامنے یہ سبق بہتیرا دہرایا گیا مگر وہ اپنے ربّ کی دی ہوئی طاقت اور بادشاہت کو اپنی ذات کا غرور بناکر انا ربکم الاعلیٰ کا دعویٰ کر بیٹھے۔
میں: یعنی ربّ کے وجود کا اقرار، ادراکِ ذات وکائنات میں پوشیدہ ہے۔ انسان بس اسی ایک نکتے پر غور کرلے کہ اس کی اپنی زندگی اور جسم وجاں میں ودیعت کردہ صلاحیتوں اور قوتوں میں اس کا اپنا کون سا کمال اور ہنر شامل ہے۔ اور چاروں طرف پھیلی اس کائنات کو سمجھنا اور زندگی کے رازوں سے پردہ اٹھانا ہزاروں لاکھوں صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کی عقل سے بالاتر ہے۔
وہ: شاید اسی لیے یہ زندگی شاعر کو ایک معمہ اور دیوانے کا خواب، فلسفی کو ایک الجھی ڈور اور سائنس دان کو ایک کیمیائی عمل لگتی ہے۔ مگر اصل میں تو زندگی خدا کی نعمت اور اس کی عطا کردہ امانت ہے، مگر افسوس کہ انسان نے خدا سے کیے گئے پیمانِ الست کو بھلا کر اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بناتے ہوئے خالق کائنات کے بجائے اپنے بنائے اصولوں کو زندگی میں رہنما بنالیا۔ بقول اجمل سراج
بھولنے کے لیے وہ ساعت ِ پیمانِ الست
وقت سے اک نیا پیمان خریدا ہم نے