سینیٹ الیکشن،اسٹیبلشمنٹ مزید اسٹیبلش ہوگئی

281

سینیٹ کے انتخابات اور چیئر مین سینیٹ کے انتخاب دونوں میں ایک ہی طریقہ اختیار کر کے نتیجہ اِدھر کا اُدھر کر دیا گیا ۔ دونوں قوتوں کو بتا دیا گیا کہ تمہاری کوئی اوقات نہیں اصل چیز پارلیمنٹ اور اس کے ارکان کو کنٹرول کرنے والے ہیں۔ جو کام سینیٹرز کے انتخاب کے وقت حکومت کے ساتھ کیا گیا وہی کام اب پی ڈی ایم کے ساتھ ہوا ہے ۔ کس نے کیا لیا ؟ کس کو کیا ملا ؟ اس کا علم وقت گزرنے کے بعد ہو گا یا اس وقت ہو گا جب کوئی دل جلا بھانڈا پھوڑے گا ۔ لیکن کچھ تو ہوا ہے جو فی الحال پردے میں ہے ۔ چیئر مین سنجرنی کی دوبارہ کامیابی کا طریقۂ کار بھی وہی تھا جو قومی اسمبلی کے ارکان کی جانب سے گیلانی اور حفیظ شیخ کے معاملے میں ہوا یعنی حفیظ شیخ کے ووٹ ضائع ہوئے اور حکومت کی دوسری امید وار کو پورے ووٹ ملے۔ اس مرتبہ بھی یہی طریقہ اختیار کیاگیا ۔ واضح لگ رہا ہے کہ سب کو اسکرپٹ دیا گیا تھا ۔ کس کو ووٹ پر کیا لکھنا ہے نام کے سامنے نشان لگانا ہے یا دونوں کے حق میں ووٹ کس کو دینا ہے ۔ نتیجہ48اور42 آیا ہے ۔ پارٹی پوزیشن یا نمبر گیم کے مطابق اپوزیشن کے 51ووٹ تھے اور حکومتی اتحاد کے47، جماعت اسلامی کے مشتاق خان نے جماعت کے فیصلے کے مطابق ووٹ نہیں ڈالا جبکہ اسحاق ڈار نے اب تک حلف نہیں اٹھایا ان کی رُکنیت معطل ہے ۔اس اعتبار سے اپوزیشن کو چار ووٹوں کی واضح بر تری حاصل تھی ۔ لیکن اسکرپٹ دینے والوں نے یوسف رضا گیلانی کے7ووٹ مستردکرا دیے ۔ لیکن51 میں سے7ووٹ کم کریں تو44ملنے چاہیے تھے دو ووٹ کہاں گئے ۔ یعنی عمران خان درست کہہ رہے ہیں کہ منتخب ارکان جانوروں کی طرح بِکے ہیں اسی طرح ڈپٹی چیئر مین مرزا خاں آفریدی کو54 ووٹ مل گئے لہٰذا ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ خفیہ بیلٹ کے ذریعے ووٹ ضائع کرکے بکنے کا طریقہ اختیار کیا گیا ۔
سینیٹرز کے انتخاب میں پی ٹی آئی والوں کو یہی ہدایات ملی تھیں ۔ انہوں نے ہدایات کے مطابق عمل کیا ۔اور اب پی ڈی ایم والوں کو یہی ہدایات تھیں ۔ جہاں تک الیکشن کمیشن پر وزیر اعظم کے الزام اور الیکشن کمیشن کے بیان کا تعلق ہے دونوں کے لیے سوال ہے کہ اب الیکشن کمیشن پر وزیر اعظم نے الزام کیوں نہیں لگایا ۔ اور الیکشن کمیشن نے ووٹوں کی تعداد کی مناسبت سے زیادہ ووٹ لینے پر پی ٹی آئی کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی ۔ چیئر مین کو تو47 کے بجائے48ووٹ مل گئے ، ایک ووٹ کہاں سے آیا؟ لیکن ڈپٹی چیئر مین کے الیکشن میں کوئی ووٹ غلط نہیں ڈالا گیا ۔ سینیٹ اور چیئرمین اور ڈپٹی چیئر مین کے انتخابات کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ نے حکومت اور اپوزیشن دونوںکے سامنے اپنی طاقت اسٹیبلش کر دی ہے کہ جس کو چاہیں جتا دیں اور جس کو چاہیں ہروا دیں ۔ اب دونوں ہی اس کے در پر سوالی بن کر رہیں گے ۔ اب پی ڈی ایم کی باری ہے وہ شور مچائے گی کہ ووٹ چوری ہو گئے ۔ لیکن وزیر اعظم عمران خان اسے جمہوریت کی فتح قرار دیںگے۔ سینیٹ انتخابات سے قبل2018ء کے انتخابات سے اسٹیبلشمنٹ نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ اسے جمہوریت پر بھی یقین نہیں ہے۔ جو لوگ جمہوریت پر بھی یقین نہیں رکھتے وہی لوگ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کرجمہوریت کے نام پر اقتدار کا کھیل کھیلنے میںمصروف ہیں ۔ یہی جمہوریت کے چیمپئن قرار پاتے ہیں۔ 2018ء سے سینیٹ کے الیکشن اور چیئر مین ڈپٹی چیئر مین کے انتخاب تک بار بار یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اب کسی کو جمہوری راستے سے ایوانوں تک بھی نہیں پہنچنے دیا جائے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے لیڈرز اسٹیبلشمنٹ کے شکنجوں میں پوری طرح پھنسے ہوئے ہیں لہٰذا وہ اب صرف زبانی جمع خرچ کر سکتے ہیں۔ یا تھوڑا بہت شور مچا سکتے ہیں ۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کی گرفت سے باہر نہیں نکل سکتے یہی حال حکومت کا بھی ہے ۔ جمہوریت کا قتل کرنے والوں نے اس پر بھی بس نہیں کی اور پولنگ بوتھ میں چھ خفیہ کیمرے لگا دیے گئے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیمرے ایوان میں کب اور کیسے نصب کیے گئے ۔ ایوان کی سیکورٹی کس کے پاس تھی ۔ کون اندرآیا کس نے کیمرے لگائے اور کیا اپوزیشن کے اراکین اتنے اسمارٹ ہیں کہ انہیں کیمروں کی موجودگی کا احساس ہو گیا ۔ جو لوگ ووٹ ڈالنے میں غلطی کرتے ہوں ان کو کیمروں کی موجودگی کا پتا کیسے چلا۔ خیر یہ الگ بحث ہے لیکن کیمروں کی موجودگی کا انکشاف اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی اعتماد کی کمی کا اعلان ہے ۔
یوسف رضا گیلانی کے پولنگ ایجنٹ فاروق ایچ نائک نے اعلان کیا ہے کہ مسترد ہونے والے سات ووٹوں کے معاملے کو چیلنج کریں گے اب یہ کام اپوزیشن کرے گی ۔ پہلے حکومت نے کیا تھا ۔ اس پورے کھیل نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جب تک سیاسی پارٹیاں اسٹیبلشمنٹ کی غلامی کرتی رہیں گی ان کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہے گا اور جمہوریت کے ساتھ بھی … افسوس ناک بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور پی ٹی آئی سب اسی اسٹیبلشمنٹ کے در پر سوالی بنے ہوئے کھڑے ہیں ۔ جو بات مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی والے پی ٹی آئی کے بارے میںکہتے ہیں وہی پی ٹی آئی والے ان دونوں کے بارے میں کہتے ہیں اور لگتا ہے کہ دونوں ہی درست کہتے ہیں ۔ ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ سات ووٹ انفرادی کار نامہ نہیں ہے بلکہ یوسف رضا گیلانی کو ہروانے والوں کو زرداری صاحب کا اعتماد حاصل تھا اب یہ کون بتائے گا کہ زرداری صاحب کو اس سے

کیا حاصل ہوا ۔ یہ بات دو تین دن میں سامنے آ جائے گی ۔ کسی مقدمے کا اخراج ، کسی مقدمے سے با عزت بری ہونا اور کسی کی رہائی ۔ مالی مفادات کا معاملہ الگ ہے۔ کسی نے کیا مفاد سمیٹا اس کا علم لینے اور دینے والوں ہی کو ہو گا ۔ لیکن آج کل ہر چیز کا ثبوت جمع کر کے رکھا جاتا ہے ۔ آنے والے وقت پر کام آتا ہے ۔کبھی2018ء کی ویڈیو سامنے آتی ہے کبھی سینیٹ کے لیے گیلانی اور حفیظ شیخ کے الیکشن میںووٹ ضائع کرنے کے طریقے سامنے آتے ہیں اور’’ اتنے پیسے تو دے دیں گے‘‘ والے جملے بھی سامنے آتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر یہ ساری چیزیں کام نکل جانے کے بعد غائب ہو جاتی ہیں ۔ نہ ویڈیو کو کوئی پوچھتا ہے نہ آڈیو کو ۔ نیب کے چیئر مین کی ویڈیو سب نے دیکھی ۔ لیکن تحقیقات جاری ہے ۔ جج ارشد ملک کی ویڈیو دیکھی لیکن تحقیقات جاری ۔ اور کسی کی بیوی کی غیر ملکی جائداد پر اسے تحقیقات کے چکر میں پھنسا دیا گیا ۔ ایک جج کو معطل کر دیا گیا ۔ تحقیقات سب کی چل رہی ہے ۔ اور چلتی ہی رہے گی ۔ بہر حال چیئر مین سنجرانی نے منتخب ہونے کے بعد اعلان کیا ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلوں گا ۔یقیناً وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے کیونکہ اس اسٹیبلشمنٹ کے سائے تلے سب ایک ہیں ۔