رجب ، روزہ اورشب معراج

351

سوال: رجب المرجب کی 27 اور 28 تاریخ روزے کی حقیقت کیا ہے؟ اور معراج کے بارے میں وضاحت درکار ہے۔ اور کیا رجب کے مہینے میں کچھ خاص تسبیحات جو آپؐ سے ثابت ہوں؟
جواب: رجب کا مہینہ حرمت والے مہینوں میں سے ہے، ان مہینوں میں عبادت کا ثواب زیادہ ہے، البتہ رجب کے مہینے میں تخصیص کے ساتھ کسی دن روزہ رکھنا یا کوئی مخصوص قسم کی تسبیحات صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے، لہذا 27 رجب کو تخصیص کے ساتھ روزہ رکھنے اور اس رات بیدار رہ کر مخصوص عبادت کرنے (مثلاً: صلاۃ الرغائب یا دیگر مخصوص تسبیحات وغیرہ) کا التزام درست نہیں ہے، اور اس کی جو فضیلت عوام میں مشہور ہے کہ اس روزے کا ثواب ہزار روزے کے برابر ہے یہ ثابت نہیں ہے؛ اس لیے اس دن کے روزے کو زیادہ ثواب کا باعث یا اس دن کے روزے کے متعلق سنت ہونے کا اعتقاد صحیح نہیں ہے۔ علمائے کرام نے اپنی تصانیف میں اس کی بہت تردید کی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے ’’تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب‘‘ کے نام سے اس موضوع پر مستقل کتاب لکھی ہے، جس میں انہوں نے رجب سے متعلق پائی جانے والی تمام ضعیف اور موضوع روایات پر محدثانہ کلام کرتے ہوئے سب کو باطل کردیا ہے۔
مولانا رشید احمد گنگوہیؒ رجب کے مہینے میں ’’تبارک‘‘ اور 27 رجب کو روزہ رکھنے کے متعلق فرماتے ہیں:۔
’’اس امر کا التزام نادرست اور بدعت ہے‘‘۔ (فتاویٰ رشید یہ مع تا لیفات رشیدیہ،ص: 148)۔
مولانا مفتی عزیز الرحمنؒ فرماتے ہیں:۔
’’ستائیسویں رجب کے روزے کو جو عوام ہزارہ روزہ کہتے ہیں اور ہزار روزوں کے برابر اس کا ثواب سمجھتے ہیں، اس کی کچھ اصل نہیں ہے‘‘۔ (فتاوٰی دارالعلوم مد لل و مکمل: 6/491۔ 492)۔
مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ فرماتے ہیں:۔
’’ماہ رجب میں تاریخِ مذکورہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت پر بعض روایات وارد ہوئی ہیں، لیکن وہ روایات محدثین کے نزدیک درجہ صحت کو نہیں پہنچیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے ’’ماثبت بالسنتہ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ بعض بہت ضیعف ہیں اور بعض موضوع (من گھڑت) ہیں‘‘۔ (فتاوٰی محمودیہ، 3/281، ادارہ الفاروق کراچی)۔
مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:۔
’’اس شب کے لیے خصوصی نوافل کا اہتمام کہیں ثابت نہیں، نہ کبھی نبیؐ نے کیا، نہ صحابہ کرامؓ نے، نہ تابعین عظامؒ نے کیا۔ علامہ حلبی تلمیذ شیخ ابن ہمامؒ نے غنیتہ المستملی، ص:411 میں، علامہ ابن نجیمؒ نے الجر الر ائق شرح کنز الد قائق، ج: 2، ص: 56، میں، علا مہ طحطا وی نے مراقی الفلاح، ص:22 میں، اس رواج پر نکیر فرمائی ہے اور اس کے متعلق جو فضائل نقل کرتے ہیں ان کو ردکیا ہے‘‘۔ (فتاویٰ محمودیہ :3/284، ادارہ الفاروق کراچی)۔
لہذا اس مہینے میں تخصیص کے ساتھ کسی عبادت کو ضروری سمجھنا درست نہیں ہے، ہاں تخصیص اور التزام کے بغیر جس قدر ہوسکے اس پورے مہینے میں عبادت کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔
2۔ رجب کی ستائیسویں رات کے بارے میں اگرچہ مشہور ہے کہ یہ شبِ معراج ہے، لیکن یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ یہ وہی رات ہے جس میں نبی کریمؐ معراج پر تشریف لے گئے تھے، کیوں کہ اس بارے میں روایات مختلف ہیں، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے، بعض روایتوں میں رجب، بعض میں ربیع الثانی، بعض میں رمضان اور بعض میں شوال کا مہینہ بیان کیا گیا ہے، اس لیے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ کونسی رات صحیح معنی میں معراج کی رات تھی، اگر یہ کوئی مخصوص رات ہوتی اور اس کے بارے میں خاص احکام ہوتے تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا، جب کہ شبِ معراج کی تاریخ قطعی طور پرمحفوظ نہیں۔ فقط واللہ اعلم (جامعۃ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹاؤن)۔