معراجِ رسول ﷺ غم کا مداویٰ و مرتبے کی بلندی – مولانا حفظا الرحمن اعظمی مدنی

580

دلائل نبوت

رسالت محمدی برحق ہے۔ اس پر ایمان لانا اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے، جس کو باری تعالیٰ نے بہت ہی عظیم الشان طریقے پر ذکر فرمایا ہے۔ سیرت کے بہت سے واقعات سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی دلیل اور آپ کے معجزات میں سے ہیں، جیسے شق القمر اور کنکریوں کا کلمہ پڑھنا وغیرہ۔ اسی طرح آپؐ کی جسمانی معراج یعنی رات کے چند لمحات کے اندر ساتوں آسمان کا سفر کرکے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس تشریف لے جانا، باری تعالیٰ سے ہم کلام ہونا، بار بار کی تخفیف کے بعد امت کے لیے 5 وقت کی نماز کا تحفہ لے کر چند لمحات میں بیت اُم ہانی کے اندر واپس تشریف لانا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔

’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے خاص بندے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو رات کے ایک قلیل حصے میں مسجدحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی، (جس سے اصل مقصود یہ تھا کہ آپؐ کو آسمانوں کی سیر کرائیں اور وہاں کی) خاص خاص نشانیاں آپ کو دکھائیں۔ (جن کاکچھ ذکر سورۃ النجم میں فرمایا ہے کہ آپ سدرۃ المنتہیٰ تک تشریف لے گئے، اور وہاں جنت و جہنم اور دیگر عجائباتِ قدرت کا مشاہدہ فرمایا۔) تحقیق کہ اصل سننے والا اور اصل دیکھنے والا حق تعالیٰ ہے۔ (وہی جس کو چاہتا ہے اپنی قدرت کے نشانات دکھلاتا ہے اور پھر وہ بندہ اللہ کی تبصیر سے دیکھتا ہے اور اللہ کے اسماع سے سنتا ہے)‘‘۔(سورہ بنی اسرائیل، آیت:۱-۲)۔

تبلیغ و دعوت اور رنج و غم کے لمحات نبوت ملنے کے بعد حکم ہوا

’’اے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ وہ (پیغام لوگوں تک) پہنچادیجیے، جو آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے نازل کیاگیا، اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو (گویا کہ) آپ نے اپنے رب کا پیغام لوگوں تک نہیں پہنچایا‘‘۔(المائدہ)۔

چناں چہ بعثت کے بعد 3 سال تک آپؐ خفیہ طریقے پر دین اسلام کی تبلیغ کرتے رہے اور لوگ آہستہ آہستہ اسلام میں داخل ہوتے رہے۔ 3 سال کے بعد یہ حکم نازل ہوا:۔

’’جس بات کا آپ کو حکم دیاگیا ہے، اس کا صاف صاف اعلان کردیجیے اور مشرکین کی پروانہ کیجیے‘‘۔ (سورہ الحجر)۔

چناں چہ کوہ صفا پر چڑھ کر آپ نے احکام الٰہی کو لوگوں تک پہنچایا اور علانیہ دعوت کا کام شروع کردیا۔ ادھر آپؐ نے دعوت کا کام شروع کیا اور ادھر مکہ کے قریش و مشرکین کی ریشہ دوانیوں، منصوبہ بندیوں اور ایذا رسانیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ آپؐ تنہا مسجد حرام اور خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے کے لیے جاتے تو طرح طرح کی کلفتوں اور مشقتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کبھی کوئی آپؐ پر پتھر پھینکتا، کبھی آوازیں کستا اور تمسخر و مذاق اڑاتا، اسی طرح راستے میں کبھی آپ کے سرپر اوپر سے کوڑا کرکٹ ڈال دیا جاتا، کبھی اوجھڑی پھینک دی جاتی اور آپ کے لیے تبلیغ کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی جاتیں۔

یہ سارے حالات ذہنی کلفت و اذیت کا سبب بھی تھے اور جسمانی مشقت و پریشانی کا باعث بھی۔ وہ بھی کسمپرسی، افلاس اور کم مائیگی کے عالم میں، لیکن پھر بھی آپ کی تسلی اور دل کی مضبوطی و اطمینان کے لیے دوسہارے موجود تھے۔ 8 سال کی عمر میں جب آپؐ کے دادا عبدالمطلب کا انتقال ہوا، تو انہوں نے آخری وقت میں آپؐ کے چچا ابوطالب کو آپؐ کی تربیت اور پرورش کے لیے وصیت کی۔ انہوں نے باپ سے بڑھ کر آپؐ کے ساتھ شفقت و ہمدردی کی، اور تربیت کاحق ادا کیا۔ اسی طرح آپؐ کی سب سے پہلی اہلیہ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا غار حرا سے واپسی اور نبوت ملنے کے بعد سب سے پہلے آپؐ پر ایمان لائیں، اور زندگی بھر آپؐ کے لیے سہارا اور قلبی راحت و سکون کا سبب بنی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ساری اذیتوں اور پُرخاش ماحول کے بعد جب آپؐ گھر تشریف لاتے تو آپؐ کے دل کو قرار اور چین و سکون نصیب ہوجاتا۔ تاہم نبوت کے دسویں سال آپؐ کے یہ دونوں غم خوار دنیا سے رخصت ہوگئے، جس کے باعث یہ سال عام الحزن کہلایا۔

اس کے بعد آپؐ دعوت کی غرض سے مکہ مکرمہ کے مضافاتی شہر طائف تشریف لے گئے، تاہم وہاں کے ناخلف عمائدین نے آپؐ کا پیغام قبول کرنے کے بجائے شہر چھوڑنے کا کہہ دیا اور اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ اوباشوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا، جنہوں نے پتھر مار مار کر آپؐ کے قدم مبارک لہولہان کردیے۔

خورشید مبین کی تابانی (معراجِ رسولؐ)

ابتلا و آزمایش بہت زبردست تھی۔ صبر آزما مراحل اورمصائب کے پہاڑ تھے، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر کی تلقین کی گئی۔ ارشاد ہوا:۔

’’تو آپ صبر کیجیے جیسا اور ہمت والے پیغمبروں نے صبر کیاتھا اور ان لوگوں کے لیے (انتقام الٰہی کی) جلدی نہ کیجیے‘‘۔ (سورہ الاحقاف، آیت:۵۳)۔

باری تعالیٰ نے آپ کی صبر و تسلی کے لیے یہ بھی فرمایا:۔

’’ہم نے آپ پر سے آپ کا وہ بوجھ اتار دیا، جس نے آپؐ کی کمر توڑ رکھی تھی اور ہم نے آپؐ کی خاطر آپ کا آوازہ بلند کیا‘‘۔ (سورہ الانشراح، آیت:۴)۔

ظاہر ہے جو حبیب و محبوب ہو، آخری رسول ہو، ’’بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘ کا مصداق ہو، تاریکیوں میں چراغ روشن کرنے کا عزم رکھتا ہو، دشوار گزار مراحل اور خاردار وادیوں کو پار کرتا ہو، حوصلہ شکن حالات کا پامردی سے مقابلہ کرتا ہو، تو اس کو تمغہ بھی اتنا ہی بڑا ملنا چاہیے، اور اس کے بلندی مرتبہ پر دلیل بھی اتنی بڑی قائم ہونی چاہیے کہ جس کے اوپر اور دلیل نہ ہو اور جس سے زیادہ عظیم الشان کوئی واقعہ اس کرئہ ارض پر نہ پیش آیا ہو اور نہ آسکتا ہو، اور وہ اسرا و معراج کا عظیم الشان واقعہ تھا۔

سفر معراج کے اندر پوشیدہ بلند و بالا مقاصد، لطائف ومعارف اور دروس و عبر آپؐ کے اوپر پے بہ پے نازل ہونے والے رنج و غم کا مداویٰ ثابت ہوئے، جس کے ذریعے آپ کے اوپر سے حزن و ملال کے بادل چھٹ گئے۔ آپؐ نے اپنی زندگی کے لمحات میں ’’ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ‘‘ کا منظر دیکھاا ور خوشی و مسرت پائی اور فرحت و انبساط کے حالات کی طرف لوٹ آئے اور نہ صرف غم و اندوہ کافور ہوئے، بلکہ دعوت و تبلیغ کی راہیں ہموار ہوتی گئیں، بلکہ رغبت و لگن اور مولیٰ کی رضا جوئی کے ساتھ قدم بڑھتے رہے۔ آپؐ کے عزم و حوصلہ اور پختگی و ثبات قدمی کو مہمیز کرنے والی قوت ملی، کیوں کہ اس سفر مبارک میں آپ کے مرتبے کی بلندی بھی تھی۔