کورونا کے باعث مسائل کا شکار نجی تعلیمی اداروں کے ٹیکس معاف اور بلاسود قرض دیے جائیں

84

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) کورونا کی وبا سے ملک کے دیگر شعبوں سے کہیں زیادہ نجی تعلیمی اداروںکو معاشی مسائل سے گزرنا پڑا۔ شہر قائد میں کئی ایسی این جی اوز اور فلاحی ادارے خدمات انجام دے رہے ہیں انہوں نے بھی اس اہم مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی۔ تعلیمی اداروں پر لاگو ٹیکسز کو معاف کیا جائے اور ان کو حکومت کی جانب سے سود سے پاک آسان اقساط پرقرضوںکا جراء کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاریکٹوریٹ آف پرائیوٹ انسٹی ٹیوشنز کی رجسٹرار رفیعہ ملاح، ثانوی تعلیمی بورڈ کے سابق رکن غلام عباس بلوچ اور آل پرائیوٹ اسکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن سندھ کے چیئرمین سید طارق شاہ نے نمائندہ جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ڈائریکٹوریٹ آف پرائیوٹ انسٹی ٹیوشنز کی رجسٹرار رفیعہ ملاح کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا سے پیدا شدہ صورت نے اپنے شدید تر سماجی اور اقتصادی اثرات کے ساتھ پوری دنیا کو متاثر کیا ہے لیکن جو تباہی تعلیمی شعبے میں دیکھنے میں آئی، اس کی تلافی ممکن نظر نہیں آتی۔ پاکستان میں اس وبا کے باعث لاک ڈاؤن نے طلبہ کے تعلیمی کیریئر کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے والدین اور ادارے جو شہر کے مضافات میں قائم ہیں وہ اس طرح آن لائن کلاسز کا انعقاد نہیں کرسکے جس طرح پوش علاقوں کے اسکولوں نے کیا۔ اس کی بڑی وجہ والدین کی جانب سے فیسوں کی عدم ادائیگی تھی۔ پاکستانی آئین ہر کسی کے لیے تعلیمی سہولیات کی ضمانت دیتا ہے لیکن اگر مالی وسائل کی ناکافی فراہمی اور ملک میں تعلیمی شعبے کی عمومی صورت حال کو دیکھا جائے تو فوراً اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دہاڑی پر کام کرنے والے افراد نے تنخواہیں نہ ملنے کے باعث اپنے بچوں کا تعلیمی سلسلہ منقطع کرادیا ہے اور اسی وجہ سے مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس علاقوں میں قائم اسکول مالکان نے ادارے بند کردیے ہیں۔ اس ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے نجی تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ نجی بینکوں سے مشاورت کرکے آسان اقساط پر قرض کی سہولت کی بات کی جائے اور ان اسکولوں کو چاہیے کہ حکومت سے اپنے درپیش معاشی مسائل کے حل کے لیے ملاقاتیں کریں۔ ثانوی تعلیمی بورڈ کے سابق رکنغلام عباس بلوچ کا کہنا تھا کہ کورونا کی وبا سے ملک کے تقریباً تمام اداروں کو ہی معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا لیکن تعلیمی اداروں کے مالکان کو دہرے معاشی مسائل سے گزرنا پڑا ایک سروے کے مطابق 70% فیصد نجی تعلیمی ادارے ملکی تعلیمی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں۔ جب کہ یہ ذمے داری حکومت کی ہوتی ہے۔ 75% تعلیمی ادارے کرائے کی بلڈنگ میں تعلیم دے رہے ہیں لیکن کورونا کی وجہ سے بلڈنگ کا کرایہ اور اساتذہ کی تنخواہوں کی ادائیگی نجی تعلیمی اداروں کے لیے بہت بڑا معاشی بحران ہے ایسے موقع پر حکومتی اداروں کے لیے بہت بڑا معاشی بحران ہے ایسے موقع پر حکومتی سطح پر اقدامات ہونے چاہییں، صوبائی حکومتوں کو آسان شرائط پر تعلیمی اداروں کو قرض فراہم کرنا چاہیے والدین کے لیے حکومت سطح پر صرف آگاہی پروگرام منعقد کیے جائیں گے تاکہ والدین اپنی بچوں کی فیس وقت پر ادا کریں طلبہ کے لیے حکومت سطح پر مالی امداد بطور اسکالر شپ دینی چاہیے۔ نجی تعلیمی اداروں کو ہم نصابی سرگرمیاں اور غیر ہم نصابی سرگرمیاں موقوف کر دینی چاہییں تاکہ معاشی بحران سے نکلا جاسکے اس کے علاوہ ایسے تمام تفریحی اورآگاہی دوروں کو موقوف کرنا چاہیے تاکہ نہ صرف معاشی بحران پر قابو پایا جاسکے بلکہ تعلیم کے نقصان کو زیادہ سے زیادہ پورا کیا جاسکے جو کہ رواں سال کورونا کی وبا سے متاثر ہوا۔آل پرائیوٹ اسکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن سندھ کے چیئرمین سید طارق شاہ کا کہنا تھا کہ اس وبا کی صورت میں جہاں تعلیمی اداروں کو معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہیں بہت سے والدین اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے، کئی لوگوں کی تنخواہوں میں خاطر خواہ کمی کی گئی جس کی وجہ سے تعلیم تو دور کی بات ان کا اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہو گیا تھا۔لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو تعلیمی ادارے کا نظم و نسق چلانا بھی بغیر فیس کے ناممکن تھا۔کیونکہ اس سسٹم کو چلانے کا سارا دار و مدار فیسوں پر ہو تا ہے۔اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا کہ جب یہ مسائل تھے تو حکومت نے تمام اداروں کو ریلیف دیا اور اگر نہیں دیا توصرف نجی تعلیمی اداروں کو نہیں دیا۔حکومت کو چاہیے تھا کہ جن اسکولوں میں والدین فیسیں ادا نہیں کر پارہے تھے تو حکومت ایک فنڈ قائم کر دیتی جس سے ان تعلیمی اداروں کو ایسے بچوں کی فیسیں ادا کی جاتی جن کے والدین فیسیں ادا کرنے سے قاصر تھے۔ جس سے اسکول بھی اپنا سسٹم چلانے کے قابل رہتے اور والدین بھی اپنے بچوں کا تعلیمی سلسلہ جاری رکھ پاتے۔دونوں چیزیں نہ دینے سے کئی بچوں کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ ایک اور طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گا شہر قائد میں کئی ایسی این جی اوز اور فلاحی ادارے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے بھی اس اہم مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی۔تعلیمی اداروں پر کئی ٹیکسز لاگو ہیں۔ حکومت اس وبا میں ان ٹیکسز کو معاف کرکے تعلیمی اداروں کو درپیش معاشی مسائل میں کمی لاسکتی تھی۔