جاہلیت خالصہ کے الحادی اعتقادات

1009

جاہلیت خالصہ وہ مخصوص علمی جاہلیت ہے جو سترہویں صدی میں یورپ میں مرتب ہونا شروع ہوئی اور جو آج پوری دنیا میں غالب عقلیت ہے۔ اس کا دائرۂ کار دو حصوں میں منقسم ہے، طبیعی اور معاشرتی سائنس۔ یہ دونوں شاخیں سائنس ہونے کا دعویٰ اس لیے کرتی ہیں کیونکہ دونوں کا منہج استدلال ایک ہے یعنی سائنٹفک میتھڈ۔ مولانا مودودیؒ نے اپنے رسالہ ’’اسلام اور جاہلیت خالصہ‘‘ میں اس باطل علمیت کو جاہلیت خالصہ کے طور پر 1940کی دہائی کے اوائل ہی میں پہچان لیا تھا۔ موجودہ مضمون ان کے اسی رسالے کی ایک ابتدائی وضاحتی تشریح ہے یعنی ’’اسلام اور جاہلیت خالصہ‘‘ کا ایک حاشیہ ہم اسلامی انقلابی ہیں اور دین کے غلبہ کی عالمی جدوجہد کر رہے ہیں۔ جیسا کہ پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی نے فرمایا اسلام ایک علمیت ہے جب تک یہ علمیت عالمگیری غلبہ حاصل نہ کرے اقامت دین کا کام مکمل نہیں ہو سکتا۔ علوم اسلامی (علوم شرعیہ اور علوم لدنی) کے عالمی غلبہ کو ممکن بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جاہلی علمیت یعنی سائنس کو مسخر کیا جائے۔ یہ بھی اسلامی انقلابیوں کی ذمے داری ہے۔ لیکن ہمارا عام کارکن اس ذمے داری سے غافل ہے۔ وہ نظری بحثوں میں حصہ نہیں لیتا۔ اس کا نظریاتی مکالمہ تقریروں کی سطح سے اوپر نہیں اٹھتا۔ وہ جاہلیت خالصہ کی حقیقت کو نہیں جانتا اور اس کو جاننے کی کوئی کوشش نہیں کرتا۔ اس رویہ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ جاہلی علمیت کے دو دھارے ہیں۔ تصوراتی مادہ پرستانہ تصوراتی اعتقادات تصوراتی اعتقادات کی سب سے واضح تشریح ڈیکارٹ اور کانٹ کے ہاں ملتی ہے۔ ڈیکارٹ کے مطابق وجود دماغی تفکر کا اظہار ہے۔ اس نے کہا ’’میں سوچتاہوں لہٰذا میں ہوں‘‘۔ کانٹ کے مطابق جاہلی علمیت محدود ہے۔ اس خیال کی بنیاد پر انیسویں صدی میں نظریہ جاہلیت علمیت مرتب کیا گیا۔ جاہلی تصوراتی نظریہ علمیت اس عقیدے پر قائم ہے کہ حقیقت تک انسانی رسائی ناممکن ہے۔ چیزوں کی حقیقی حیثیت نہیں جانی جا سکتی۔ علمیت کا دائرہ کار محسوسات تک محدود ہے۔ ہم صرف وہ جان سکتے ہیں جس کو محسوس کیا جا سکتا
ہے۔ حقیقت کا ادراک تفکر کے ذریعہ نہیں کیا جا سکتا۔ انسان کی نفسیاتی اور طبعی صلاحیتیں ایسی ہیں کہ وہ اس کی حقیقت تک رسائی کو ناممکن بناتی ہیں۔ علم کے ذریعہ ہم نہ مقصد وجود سے آگاہ ہو سکتے ہیں نہ اس بات سے کہ زندگی کیسے گزارنا چاہیے۔ جو دنیا انسانی احساس سے ماورا ہے وہ جانی نہیں جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کانٹ سے ہیبرماس تک تمام تخیلاتی ملحد مذہب (بالخصوص عیسائیت) کو علمیت کے دائرہ سے خارج قرار دیتے ہیں۔ مذہب کو تخیلاتی ملحدین transcendent کہتے ہیں یعنی ماورائے احساس۔ مذہب ایسا واہمہ ہے جس کو نہ ثابت کیا جا سکتا ہے نہ رد کیا جا سکتا ہے۔ مذہب حقیقت کے علم سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ مثلاً (بقول ہیبرماس) مذہبی ریاست کی کوئی توجیہ ممکن نہیں۔ لہٰذا جاہلی تخیلاتی علمیت صرف نفسانی احساسات کی ترتیب کو ممکن بناتی ہے۔ علمیت صرف نفس امارہ کے احساسات کی تشریح تک محدود ہے اور ان احساسات تشریح کی بنیاد پر کوئی مربوط تصور حیات قائم نہیں کیا جا سکتا۔ جو کائناتی حرکیات نفس امارہ کے احساسات کے دائرہ کار سے ماورا ہیں وہ اصولاً علمیت کے دائرہ کار سے خارج ہیں۔ اس قسم کی حرکیات کا فہم حاصل کرنے کی ہر کوشش محض انسانی نفسیاتی اور طبعی صلاحیتوں کے حدود پھلانگنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ سائنسی منہج منقسم ہے اسے
مربوط نہیں کیا جا سکتا۔ وہ کل کا ادراک نہیں کر سکتا اور نظام کائنات کا کوئی سائنسی بیانیہ مرتب نہیں کیا جا سکتا نہ اس ضمن میں سائنس اور مذہب (یعنی عیسائیت) کا ایک غیر تضاداتی مرکب بیانیہ مرتب کیا جا سکتا ہے۔ منطق، علمیت کے ترتیب و تسوید کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو احساسات نفسانی کو منطبق کرتا ہے۔ منطق (logic) کے ذریعے احکامات نفسانی کی تعمیل کے سہل اور مفید طرائق دریافت کیے جاتے ہیں اور منطق ہی کا اطلاق علمیت کی حدود کی نشاندہی کرتا ہے۔ تخیلاتی ملحدین کے ہاں منطق اور تعقل (rationality) کو عموماً ہم معنی سمجھا گیا ہے۔ منطق اور تعقل دونوں نفس امارہ کے احکامات بجا لانے کا ذریعہ ہیں۔ وہ احساسات جو نفس امارہ کی تابعداری سے متعلق نہیں مثلاً احساس بندگی رب، منطق کے اطلاقی دائرہ کار سے خارج ہیں۔ Parsons ان احساسات کو دیومالائی کہتا ہے۔ سائنس ان دیومالائی احساسات کی کوئی توجیہ پیش نہیں کر سکتی۔
مادہ پرستانہ اعتقادات ہیگل کی فکر تصوراتی اور مادہ پرستانہ منہج کے درمیان ایک پل کا کام دیتی ہے۔ جاہلی علمیت کے ضمن میں اس فکر کی سب سے واضح تشریح لیفٹ ہیگلینز اور مارکسسٹوں نے مرتب کی ہے۔ ہیگلین نظریات کی بنیاد پر اکنامکس، سوشیالوجی اور پولیٹکل سائنس انیسویں صدی میں مرتب ہوئے جو تصوراتی اور مادہ پرستانہ اعتقادات کے امتزاج (synthesis) کے غماز ہیں۔ طبیعی جاہلی علوم (بائیولوجی، فزکس، کیمسٹری) مادہ پرستاہ منہجی اعتقادات سے قدرے زیادہ متاثر ہیں۔ ہیگل کے مطابق پوری کائنات فکر فراقی اور تفکر کے ضوابط یعنی ریشنلٹی کائناتی حرکیات کی تفہیم کا واحد ذریعہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریشنل منہج (سائنٹفک میتھڈ) کے اطلاق کی کوئی حد نہیں۔ وہ ماورائے احساس اشیاء اور حرکیات کو سمجھنے کا بھی واحد ذریعہ ہے۔ یہی مادہ پرستانہ جاہلی علمیت کا بنیادی عقیدہ ہے۔ ریشنلٹی کی پس پردہ کارفرمائی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ تاریخی عمل کے ذریعہ سائنسی منہج کا اطلاق منفرد دریافتوں کو ایک مربوط شکل میں مرتب کرے اور یوں بتدریج فکر سے کائناتی فراق کو پاٹا جاتا رہتا ہے۔ ہیگل کا یہ مفروضہ معاشیات کے بانی آدم سمتھ کے تصور مارکیٹی خفیہ ہاتھ مماثل ہے۔ مادہ پرستانہ جاہلی علمیت کا سب سے اہم مکتبہ ٔ فکر مارکس ازم ہے۔ مارکسسٹس کہتے ہیں کہ ارتقا تفکر کا ذریعہ پیداواری عمل کا ارتقا ہے۔ لہٰذا تفکر کی درستی کا پیمانہ وہ عمل (practice) ہے جو پیداوار میں ارتقا کو ممکن بناتا ہے۔ پیداواری ارتقا کو جاری رکھنے کے قوانین فطری اور حقیقی اور فکر انہی قوانین کی تفہیم اور انطباق کے ذریعہ ترقی کرتی ہے۔ لہٰذا فکر کے ذریعہ حقیقت تک رسائی کا ناگزیر ریشنل منہج کے انطباق کے ذریعے فرد ان ضوابط اور معاشرتی اعمال نشاندہی کر سکتا ہے جن کی کارفرمائی کے ذریعے اس کی نفسانی خواہشات کی تکمیل کی جا سکتی ہے۔ مارکس کے مطابق روح انسان کی نفسانی جبلتوں کا پرتو ہے۔ یہ روح پیداواری عمل کی بنیاد پر ظواہر (phenomenon) کی تخلیق اور انطباق کے ذریعے کائناتی حقائق تک رسائی حاصل کرتی ہے اور ہیگل کی طرح مارکس بھی اس تفہیمی عمل کو تاریخی گردانتا ہے۔ فکر کی درستی اس کی حقیقت تک رسائی کا واحد پیمانہ ہے ارتقائے پیداوار ہے۔ سائنسی منہج کے اطلاق کے ذریعے ایسے قوانین وضع کیے جا سکتے ہیں جن کے ذریعے کائناتی نظام کو انسانی نفسانی خواہشات کے تابع کیا جاسکتا ہے کیونکہ پیداواری عمل کائناتی قوتوں کو مسخر کرنے کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا لینن کے مطابق سائنٹفک میتھڈ کے ذریعے تمام فطری، مادی اور روحانی ارتقا کے قوانین دریافت کیے جا سکتے ہیں۔
(جاری ہے)
Evald llyenkov کے مطابق سائنٹفک میتھڈ وہ نظریاتی منہج ہے جو ہمیں فطرت اور معاشرت کے تمام ارتقائی قوانین سے آگاہ کرتاہے۔ سائنٹفک میتھڈ ہی مادہ پرستانہ نظریہ (جاہلی) علمیت ہے۔ مادہ پرستانہ نظریہ علمیت کے مطابق سائنٹفک میتھڈ وہ واحد ذریعے ہے جس سے ہم انسانی اور کائناتی وجود کی حقیقت دریافت کر سکتے ہیں۔ سائنٹفک میتھڈ ان آفاقی ہیئتوں کی نشاندہی کرتا ہے جو فکر (روح) اور وجود (جو مادی ہے) کو مربوط کرتی ہیں۔ النیلکو کے مطابق نظریاتی تعمیر عمل درجہ بند ہے اور نظریاتی درجہ بندی نفسی جبلتوں کی پابند نہیں بلکہ سائنسی تجرباتی اطلاعات کی ترتیب سے متعین کی جاتی ہے۔ یوں سائنٹفک میتھڈ کے ذریعے نفس اور خواہشات اور کائناتی حقائق کا ارتباط مرتب کیا جا سکتا ہے۔ بقول لینن سائنٹفک میتھڈ کے اطلاق کے ذریعہ ہم انسانی وجود اور کائنات کو سمجھ بھی سکتے ہیں اور نفسانی خواہشات کے عالمی تغلب کو ممکن بھی بنا سکتے ہیں۔ اس عمل کو جاری رکھنے سے وجود کی مقصدیت بھی عیاں ہوتی ہے۔ مارکس ڈارون کا شیدائی تھا اور اس کے خیال میں تمام حیوانوں کی طرح انسان کا اصل مقصد اپنی حیات کو طول دینا اور اپنی خواہشات نفسانی کے پورے کرتے رہنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ مارکس کے خیال میں سائنٹفک میتھڈ بالخصوص نظریہ ارتقا سے یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔
اسلامی تنقید: علما کی خدمت میں چند سوالات سائنٹفک میتھڈ کے اطلاق کے نتیجے میں انسانیت مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ ادویاتی صنعت اور ایلوپیتھک میڈیسن کے پھیلائو کے نتیجے میں نئی نئی وبائیں کروڑوں انسانوں کو ہلاک کر رہی ہیں۔ ماحولیاتی ابتری، موسمیاتی بحری اور فضائی نظام کو ناقابل برداشت حد تک کثیف کر رہا ہے۔ اطلاعاتی اور مواصلاتی بحران نے حقیقتوں کو سراب )بنا دیا ہے۔ سرمایہ دارانہ سامراجی تغلب نے تقریباً پوری نوع انسانی کو آزادی یعنی ابلیس پرستی کے شکنجہ میں کس لیا ہے۔ یہ سب سائنسی طریقے کے عالمی اطلاق کا نتیجہ ہے۔ جاہلیت خالصہ کے اس عالمی غلبہ کو ختم کرنے کے لیے اس کا اسلامی نقد مرتب کرنا ضروری ہے۔
یہ جماعت سے وابستہ علمائے کرام اور صوفیائے عظام کا منصب ہے کہ وہ جاہلیت خالصہ (سائنٹفک میتھڈ) کا اسلامی نقد مرتب فرمائیں۔ لہٰذا جمعیت اتحاد علما کے سامنے مندرجہ ذیل سوالات پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں تاکہ ان کے جوابات کی روشنی میں جماعت اس فکر کو جاہلیت خالصہ ثابت کرنے کی طرف ابتدائی کام کر سکے۔ ۱۔ ڈیکارٹ کے قول ’’میں سوچتاہوں لہٰذا میں ہوں‘‘ کی شرعی حیثیت ۲۔ اس مفروضہ کا نقد کہ ’’انسان حقیقت (nomenon) تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا‘‘۔ ۳۔ کیا علم کی بنیاد صرف نفسی احساست ہیں۔ ۴۔ کیا مطلوب طرز زندگی کا ادراک علم کے ذریعہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ۵۔ اس مفروضہ کا نقد کہ ’’مذہبی علمیت ، علمیت کے دائرہ سے خارج ہے‘‘۔ ۶۔ اس دعویٰ کا نقد کہ ’’اسلامی ریاست کی کوئی توجیہ بیان نہیں کی جا سکتی‘‘۔ ۷۔ اس مفروضہ کا نقد کہ تمام مذہبی علمیت واہمہ ہے۔ ۸۔ اس مفروضہ کا نقد کہ علم صرف احکامات نفسانی کی تعمیل کا ذریعہ ہے۔ ۹۔ اس مفروضہ کا نقد کہ ’’پوری کائنات فکر فراقی ہے‘‘۔ ۱۰۔ اس مفروضہ کا نقد کہ ’’سائنسی منہج ماورائے احساس حقائق کو پہچاننے کا ذریعہ ہے‘‘۔ ۱۱۔ حق تاریخ انسانی میں ریشنلٹی کے ذریعہ اجاگر ہوتا ہے، کی تنقید۔ ۱۲۔ ارتقائے فکر کا واحد ذریعہ پیداواری عمل ہے، کی تنقید۔ ۱۳۔ پیداواری بڑھوتری، فکر کی درستی کا واحد ذریعہ ہے، کی تنقید۔ ۱۴۔ سائنٹفک میتھڈ کے ذریعہ ہی ایک ایسی طرز حیات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جو بندگی نفس امارہ کو ممکن بنا سکے۔
۱۵۔ تاریخ کی مادی تعبیر کا نقد۔ ۱۶۔ اس عقیدہ کا نقد کہ روح نفسانی جبلتوں کا پرتو ہے۔ ۱۷۔ سائنٹفک میتھڈ کے اطلاق کے ذریعہ کائناتی تسخیرممکن ہے۔ ۱۸۔ اس عقیدہ کا نقد کہ سائنٹفک میتھڈ کے ذریعہ تمام فطری، مادی اور روحانی قوانین دریافت کیے جا سکتے ہیں۔ ۱۹۔ سائنٹفک میتھڈ کے اطلاق کے ذریعہ وجود اور کائنات کی حقیقت دریافت کی جا سکتی ہے۔ ۲۰۔ اس مفروضہ کا نقد کہ نظریاتی درجہ بندی نفسانی جبلتوں کے تابع نہیں ہوتی۔ ۲۱۔ انسان ایک حیوان ہے جس کا مقصد حیات صرف دنیاوی زندگی کو طول دینا اور زیادہ سے زیادہ مادی لذات کا حصول ہے کی مکمل تنقید۔