اسلامی انقلاب

452

اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان آئی ایم ایف سے قرض لینے کو حکمرانوں کی ملک دشمنی قرار دیا کرتے تھے۔ کہا کرتے تھے برسر اقتدار آیا اور قرض لینے کی نوبت آئی تو خود کشی کر لوں گا مگر قرض نہیں لوں گا۔ ان کی نظر میں آئی ایم ایف سے قرض لینے کا مقصد ملک کو رہن رکھنے اور قوم کے گلے میں طوق ڈالنے کے مترادف ہے۔ مگر جب سے موصوف ایوان اقتدار میں آئے ہیں وہ ملک چلانے کے لیے قرض لینے کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرض نہ لینا ان کی نظر میں عوام کو سہولتیں اور مراعات سے محروم رکھنا ہے ان کی پیش رو حکومتیں آئی ایم ایف سے قرض لیا کرتی تھیں تو موصوف رانیں پیٹ پیٹ کر فریاد کیا کرتے تھے کے قوم کے گلے میں غلامی کا جو طوق پڑا ہوا ہے اس میں پٹا ڈال دیا گیا ہے۔ اسے حالات کی ستم کی ظریفی ہی کہا جا سکتا ہے کہ اب وزیراعظم کی حکومت غیر ملکی قرض ملنے پر بغلیں بجاتی ہے اپنی کامیا بی کی خوشی میں شادیانے بجاتی ہے، اسے قرضے کے ساتھ اشیاء ضروریات کا نرخ بڑھانے کا حکم نامہ بھی ملا ہو گا۔
ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کو ملنے والے ووٹ اس بات کا ثبوت ہیں کہ عوام وزیراعظم عمران خان کی حکومت سے کتنے نالاں ہیں اور ووٹر کتنے شرم سار ہیں وزیراعظم عمران خان نے شہنشاہ معظم بننے کی جس خواہش کا اظہار کیا ہے عوام نے اس معاملے میں جس رد عمل کا اظہار کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے اگر عوام کے اختیار میں ہوتا تو وہ ان کی حکومت کا دھڑن تختہ کر چکے ہوتے۔
امیر جماعت اسلامی سنیٹر سراج الحق نے درست ہی کہا کہ پچاس کروڑ ڈالر کی نئی قسط ایک اور مہنگائی کا سونامی لائی گی مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ حکمران خوشی سے تالیاں بجا رہے ہیں ملک کے کروڑں کاشت کار پریشان حال ہیں چھوٹے کسانوں کی حالت ناقابل دید ہے، کراچی سے چترال تک عوام کا کوئی پرسان حال نہیں، عوام سے روٹی ہی نہیں صاف پانی بھی چھین لیا گیا ہے، شہروں کو گندگی کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ غریبوں کا خون نچوڑ کر سود ادا کرنے والوں کو جلد حساب دینا ہو گا ہم انہیں احتساب کے معانی سے روشناس کرائیں گے بلدیاتی الیکشن نہ کرا کر پی ٹی آئی نے عوام دشمنی کا کھلا ثبوت دیا ہے اور عوام کو صوبائی حکومتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان زراعت میں بہتری کا بھاشن عوام نے سن لیا ہے مگر زراعت کی بہتری کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا ہے۔ حکومت کی معاشی پالیسی نے عوام کو بد حال کر دیا ہے۔ ڈی اے پی اور یوریا کھاد کی قیمتوں میں آئے روز اضافے نے کسانوں کو قرض کی دلدل میں دھنسا دیا ہے۔ تعلیمی ادارے پستی کی جانب گامزن ہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص بجٹ میں بے تحاشا کمی کر دی گئی ہے، غریبوں کو علاج کے لیے سیکڑوں میل کا سفر طے کر کے بڑے شہروں کے اسپتالوں میں آنا پڑتا ہے مگر دوا پھر بھی نہیں ملتی گویا مرے ہوئے کو شاہ مدار مارنے کا شوق پورا کر رہا ہے۔ لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان بے روز گار پھر رہے ہیں مزدور مزدوری کے لیے دھکے کھا رہے ہیں مگر مزدوری نہیں ملتی محترم سراج الحق کا ارشاد گرامی قابل غور ہے مقتدر طبقے کو اس پر توجہ دینا چاہیے ان کا کہنا ہے کے سودی معیشت سے نجات قرآن سنت کے نظام کو نافذکرنے ہی میں ممکن ہے عوام جماعت اسلامی کا ساتھ دے دے تو اسلامی انقلاب کی منزل کا حصول ممکن ہے۔ عوام جاگیرداروں اور صنعت کاروں کے چنگل سے کبھی نجات نہیں پاسکتے اور غلامی کا یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہے گا۔