جرمن اسکول کی اراضی پر جامعہ اورنگی بنانے کامطالبہ زور پکڑگیا

231

کراچی (رپورٹ، منیر عقیل انصاری) جماعت اسلامی ضلع غربی کے رہنما عطائے ربی کی جانب سے سوشل میڈیا پر اورنگی ٹاؤن میں قائم جرمن اسکول کی وسیع وعریض اراضی کو سرکاری تحویل میں لے کر اورنگی یونیورسٹی قائم کرنے کامطالبہ زور پکڑ گیا، اورنگی کے عوام نے قیمتی اراضی کو قبضہ مافیا سے بچانے اور اہل اورنگی کے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے لیاری یونیورسٹی طرز پر اورنگی یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ شروع کردیا ہے۔3 دہائی سے بند جرمن اسکول کی ایک لاکھ مربع گز سے زاید اراضی پر کافی عرصے سے قبضہ مافیا کی نظریں ہیں ، قبضہ مافیا کے کارندے لینڈ ڈپارٹمنٹ کی مدد سے اربوں روپے مالیت کی زمین پر قبضہ کرکے اس پر پلاٹوں کی کٹنگ کرکے فروخت کرنے کے درپے ہیں ، جس کے باعث اہل علاقہ میں اشتعال پھیل رہا ہے۔ اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ اورنگی ٹائون سیکٹر16 گلشن بہار میں قائم جرمن اسکول کی وسیع و عریض زمین کو لینڈمافیا اور نام نہاد این جی اوز کے قبضے سے بچایا جائے، مذکورہ زمین پر سرکاری یونیورسٹی اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے شروع کیے جائیں اور لینڈ مافیا اور اس کے سرپرستوں کے خلاف کارروائی کی جائے، علاقے کے معززین کا کہنا ہے کہ اورنگی ٹائون میں یونیورسٹی نہ ہونے کی وجہ سے بڑی تعداد میں اورنگی کی خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتی ہیں کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی ہے جب تک اس کی عورت تعلیم یافتہ نہ ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر یونیورسٹی قائم کی جائے۔ دوسری جانب اورنگی یونیورسٹی کا مطالبہ کرنے والے اورنگی ٹاؤن کے باشندوں نے یک زبان ہوکر حکومت سندھ اور وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوششوں پر زور دیا ہے ، دوسری جانب تعلیم کے لیے وقف جرمن اسکول کی اراضی پرجامعہ اورنگی کے لیے سوشل میڈیا پر مہم زور پکڑ رہی ہے اور سوشل میڈیا کی بڑی تعداد اس مطالبے کی حمایت کررہی ہے، سوشل میڈیا کمنٹس میں لوگوں کا کہنا ہے کہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے امن و امان اور خوشحالی و ترقی کے لیے جرمن اسکول کی جگہ پر گورنمنٹ یونیورسٹی قائم کی جائے۔ اہل اورنگی علم سے محبت رکھتے ہیں ۔واضح رہے کہ ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی اورنگی ٹاؤن 40لاکھ سے زایدآبادی پر مشتمل ہے ، یہاں جامعہ کاقیام ضروری ہے ،لوگوں کا مطالبہ ہے اگر اورنگی ٹاؤن میں سرکاری جامعہ قائم ہوجائے تو کم ازکم یہاں کے غریب طبقے کے بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھل جائیں گے ۔ اس حوالے سے امیر جماعت اسلامی ضلع غربی مدثر حسین انصاری نے عوام کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ اور اعلیٰ حکام سے جرمن اسکول کی اراضی پر قبضے کا فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ مدثر انصار نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اورنگی ٹاؤن ایک منی شہر ہے، متوسط اور غریب طبقے پرمشتمل 40 لاکھ سے زاید لوگوں کے لیے کوئی معیاری سرکاری تعلیمی ادارہ ہے نہ ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام موجودہے،بجلی ، پانی کا بحران کئی دہائیوں سے حل نہیں ہوا،اندرونی سڑکیں اور سیوریج کا نظام تباہ ہے، ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی کہلانے والے اورنگی ٹاؤن کے لوگوں کی آمد و رفت کا مسئلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بہت زیادہ سنگین ہوتا جارہا ہے، تو دوسری جانب سرکاری حکام مسائل حل کرنے بجائے قبضہ مافیا کے سرپرست بنے ہوئے ہیں۔سہیل احمد صدیقی کا جسارت سے گفتگو میں کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں کا قیام ملک اور قوم کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے، حکومت فوری طور پر اہل اورنگی کے اس مطالبے پر عمل کرے اور قیمتی اراضی کو نہ صرف قبضہ مافیا سے بچائے بلکہ اس اراضی سے ملک وقوم کے لیے مثبت سرگرمی شروع کرنے کے اقدامات کرے۔ اس حوالے سے65سالہ زین العابدین جو ہجرت کرکے والدین کے ساتھ پاکستان آئے تھے لیکن شناختی کارڈ بنوانے کے لیے آج بھی دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ انہوںنے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگوں نے تو سب کچھ کیا پاکستان کے لیے اورآج تک کرتے آرہے ہیں اس کے باوجود اورنگی ٹائون کے رہائشیوں کی کسی محکمے میں کوئی شنوائی نہیں ہوتی ہے۔ پانی کی عدم دستیابی ،بجلی کی لوڈشیڈنگ، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ اور کچرا اورنگی ٹائون کی حالت پر سوالیہ نشان بن گیا ہے اورنگی ٹائون کے مسائل کو حل کرنے کے لیے حکمرانوں کو سنجیدگی سے عمل کرنا ہوگا۔