زراعت کا شعبہ حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہ ہونا تشویشناک ہے، جاوید قصوری

128

لاہور (وقائع نگار خصوصی) امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے کہا ہے کہ پاکستان میں مسلسل تیسرے سال بھی کپاس کی پیداوار میں کمی تشویشناک ہے۔ جنوری تک 34 فیصد کمی سے صرف 5.5 ملین بیلز کی پیداوار ہوئی ہے جو گزشتہ سال سے 3 ملین بیلز اور 30 برسوں میں سب سے کم ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے زراعت جیسا اہم شعبہ بھی حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ وزیراعظم کے زراعت کے حوالے سے کیے گئے اقدامات محض زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز مختلف عوامی وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ شعبہ زراعت ملکی معیشت میں 80 فیصد حصے کے ساتھ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ سابقین نے اس شعبے سے وابستہ افراد کو ریلیف فراہم کیا اور نہ ہی موجودہ حکمران اس کے لیے کچھ کررہے ہیں۔ کاشتکاروں کے مسائل دن بدن بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ کسانوں کے مسائل کو ان کی دہلیز پر حل کیا جانا چاہیے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ مراعات دی جائیں۔ نقلی بیج اور ادویات کی سپلائی کو روکنا حکومت کا کام ہے مگر وہ اپنی ذمے داریاں ادا کرنے میں مسلسل ناکام دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ملک کے زرعی ریسرچ کے اداروں نے کوئی نمایاں کام نہیں کیا ہے ان کو فعال کرنے کی از حد ضرورت ہے۔ کپاس، گندم اور گنے کے کاشتکاروں کے ساتھ ہونے والا ناروا سلوک شرمناک ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک شعبہ زراعت پر خصوصی توجہ دیتے ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے۔ محمد جاوید قصوری نے اس حوالے سے مزید کہا کہ حکومت کی بڑے شہروں میں شجر کاری مہم پر توجہ ہے مگر زراعت پر نہ ہونے کے برابر ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ زرعی اصلاحات لائی جائیں۔ ماضی میں بھی کاشتکار زبوں حالی کا شکار تھا اور آج بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ زرعی زمینیں ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں تبدیل ہورہی ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کے انحطاط اور عوام کو جمہوری ثمرات سے محرومی کے غم و آلام نے نیم جان کردیا ہے۔