نئی نسل کی آبیاری کے لیے اساتذہ کی جدید و قدیم امتزاج سے ہم آہنگی ناگزیر ہے

1176

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) قوموں کی ترقی کی بڑی وجہ نظام تعلیم اور اساتذہ کی تربیت پر توجہ ہے۔ تعلیمی اداروں کی بہتر ی کے لیے نصاب، امتحانی نظام اور تعلیمی اداروں کے ماحول میں بہتری ضروری ہے۔ کتابیں تو الفاظ سکھاتی ہیںاورانسان، انسان بناتے ہیں۔ ہماری نئی نسل کی آبیاری اور تربیت بہتر انداز میں کرنے کے لیے تربیت اساتذہ کو نئے سرے سے جدید و قدیم کے اپنے نظریاتی اور معاشرتی امتزاج سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ تربیت اساتذہ کے لیے موجودہ صدی کے مطابق اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تدریسی مہارتوں کے ساتھ ساتھ رویوں میں بھی تبدیلی پیدا کرکے اساتذہ اور تعلیمی نظام کو جدید بنیادوں پر استوار کرکے عملی اقدام کیا جاسکے۔ ان خیالات کا اظہار دوربین کی ڈائریکٹر مس سلمیٰ احمد عالم، جامعہ کراچی کے شعبہ تعلیم کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر معروف بن رئوف، وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ ٹیچر ایجوکیشن کے انچارج ڈاکٹر کمال حیدر، بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری میں شعبہ تعلیم میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صائمہ محمود اور ٹیچ کی ڈائریکٹر کنول فواد نے نمائندہ جسارت سے خصوصی طور پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ بین الاقوامی اداروں کے تحت شعبہ تربیت سے گزشتہ 13سال سے وابستہ اور دوربین کی ڈائریکٹر مس سلمیٰ احمد عالم کا کہنا تھا کہ موجودہ دور کا چیلنج ہمارے سامنے ہے‘ جس میں تعلیم کا کرداربہت اہم ہے اور ترقی کے سفر میں وہی ممالک آگے ترقی کی جانب گامزن ہوں گے جن کے افراد تعلیم یافتہ، ہنرمند اور اکیسویں صدی کی مہارتوں سے لیس ہوں گے اس دور میں صرف وہی کامیاب ہوں گے جو تعلیم تخلیق اور تنقیدی شعور رکھتے ہوں گے۔ جونہ صرف جدید علوم سے آگاہ ہوں گے بلکہ اپنی زندگیوں اور معاشرے میں انکا اطلاق بھی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔ تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے۔ جو قومیں نظام تعلیم کی بہتری اور اساتذہ کی فلاح کے لیے زیادہ کام کرتی ہیں وہ دنیا میں تیزی سے ترقی کرتی ہیں۔ تعلیمی بہتری کے لیے جہاں تعلیمی اداروں کی عمارتوں‘ نصاب، درسی کتب، امتحانی نظام اور تعلیمی اداروں کے ماحول میں بہتری کی ضرورت ہے وہیں استاد کی بنیادی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے تربیت اساتذہ کے پروگرامز کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ اگر ہم تعلیم میں کوئی معیاری تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں تو تعلیمی عمل میں استاد کے کلیدی کردار کو تسلیم کرنا ہوگا اور تربیت اساتذہ کے پروگرامز میںموجودہ دور سے ہم آہنگ تعلیمی تقاضوں کے مطابق بہتری لانا ہو گی۔ اساتذہ کی تربیت کے مراکز میں ہرسال ہزاروں اساتذہ ڈگریاں لے رہے ہیں‘ لیکن کلاس روم کے اندر تعلیمی عمل میں اس تربیت کا کوئی اثرنظر نہیں آتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ تربیت اساتذہ کے بیشتر اداروں کا دقیانوسی نصاب اور فرسودہ طریقہ تدریس ہے‘ جس کا محورومرکز اساتذہ کو مٹھی بھر تدریسی طریقے سکھانا ہے‘ جن کی بدولت وہ کلاس روم میں وقت گزار سکیں۔ بدقسمتی سے ہمارے تربیت اساتذہ کے بیشتر پروگرام ایسے اساتذہ تیار کرنے میں ناکام رہے ہیں جو تخلیق، اور تنقیدی شعور سے مالامال ہوں اور جو اسکولوں میں رائج طریقہ تدریس میں کوئی تبدیلی لا سکیں۔اساتذہ پرطلبا کی شخصی اور اخلاقی تربیت کا انحصار ہے اور ان کو معاشرے کے لیے بھی ایک مفید اور موافق شہری کے طور پر پیش کرنا ہے۔اس کے لیے سرکاری اور نجی ہر دو سطح پر اساتذہ کی تربیت کا اہتمام لازمی کیا جانا چاہیے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے تربیت کو صرف بچوں کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔ نہ والدین کے ساتھ تربیت جیسا لفظ استعمال کرنا ہمیں گوارا ہے اور نہ ہی اساتذہ کے لیے۔ جامعہ کراچی کے شعبہ تعلیم کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر معروف بن رئوف کا کہنا تھا کہ تدریس کو میں Metter of all subjects سمجھتا ہوں۔ آج تعلیم و تربیت صرف معلومات منتقل کر دینا نہیں بلکہ اس کا عملی زندگی میں اطلاق کرانے کا نام ہے۔ لہٰذا تعلیم ہو یا تربیت Teaching by chance کی جگہ Teaching by choice والے افراد ہی یہ کام سر انجام دے سکتے ہیں یعنی ایسے اساتذہ جن کے طریقہ تدریس روایتی نہ ہوں بلکہ اپنے اندر ندرت اور تنقیدی سوچ و فکر رکھتے ہوں۔ جو صرف تقلید کے بجائے تحقیق کو بھی اہمیت دیتے ہوں۔ جہاں امتحان صرف معلومات کی جانچ نہیں بلکہ اخذ کرکے عمل میں ڈھلنے کا نام ہو تاکہ معاشرہ جدید جہتوں کے مطابق تیار ہو سکے۔ اس سب کے لیے تربیت اساتذہ کی ضرورت تو ہے ہی تاہم آج کے تربیت اساتذہ کے مدرجہ سسٹم میں بھی تبدیلی درکار ہے۔کیونکہ آج کے تربیت اساتذہ کے پروگرامات صرف ڈگری یافتہ اساتذہ پیدا کر رہے ہیں۔ لہٰذا جن کی خود تربیت نا ہو وہ آگے کیا تربیت فراہم کریں گے۔ طلبہ اساتذہ تعلقات ہی کو لے لیں کہ کہیں تو دونوں طبقات فاصلے کی دو انتہائوں پر نظر آتے ہیں اور کہیں یہ آپس میں اس قدر مدغم ہیں کہ باہمی تقدیس ختم ہو گئی ہے۔ کتابیں تو الفاظ سکھاتی رہیں۔ انسان، انسان بناتے ہیں۔ لہٰذا تربیت اساتذہ کو نئے سرے سے منظم کرکے اسے جدید و قدیم کے اپنے نظریاتی اور معاشرتی امتزاج سے اس طرح سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری نئی نسل کی آبیاری اور تربیت بہتر انداز میں ہو سکے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ ٹیچر ایجوکیشن کے انچارج ڈاکٹر کمال حیدرکا کہنا تھا کہ اچھا سوال ہے اور میرا خیال ہے کہ پہلے ہمیں سمجھنا پڑے گا کہ کس موجودہ دور میں ہم ہے۔ ہمیں کس قسم کا نظام تعلیم چاہیے اور اس پر عملدرآمد کروانے کے کس طرح کے اساتذہ درکار ہیں۔ ان تینوں پر تھوڑی روشنی ڈالنا چاہوں گا۔ پہلا یہ ہے کہ اس وقت سائنس وٹیکنالوجی کا دور ہے۔ اس دور میں اتنی تبدیلیاں ہوچکی ہے کہ اب تعلیم کا معاملہ گلوبلائز ہو گیا ہے۔ ہمارے نظام تعلیم میں ایسے مضامین جوکہ اس وقت اکیسویں صدی کے تقاضوں کے پورا کرتے ہیں بلکہ سوشل سائنسز کے مضامین بھی رکھے جاتے ہیں جو گلوبلائزیشن کو بھی سپورٹ کرتے ہیں۔ جو لوگوں کے درمیان امن۔بھائی چارہ۔نسلی و مذہبی تعصبات سے بڑھ کر محبت اور یگانیت کی فضا قائم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ دور سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ کورونا وبا کے باعث ہم نے اپنے نظام تعلیم میں کچھ تبدیلی کی مطلب آن لائن کی طرف گئے تو ہمیں کئی جگہوں پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔پاکستان میں کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ کبھی آن لائن تعلیم کی طرف جائیں گے۔اس تمام صورتحال پر تعلیمی ادارے طلبہ اور اساتذہ ذہنی طور پر بالکل تیار نہیں تھے۔آئندہ تعلیم میدان میں پڑھانے کے لیے آنے والے اساتذہ کو کئی چیلنجز کا سامنا ہو گا۔جس میں سب سے بڑا چیلنج ہمارے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں ٹیکنالوجی کو متعارف کرانا ہے۔ اس وقت تعلیم کا مسئلہ پاکستان ہی کا نہیں بلکہ دنیا بھر کا ہے۔ ہمارے اساتذہ اب تک روایتی انداز میں تدریس کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب ہمیں اپنے اساتذہ کو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا پڑے گا۔ ہم وہی پرانا نظام تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہم اب تک پاکستان میں اپنا نظام تعلیم نہیں بنا پائے ہیں۔ جس کی وجہ سے اساتذہ کی تربیت کا عمل بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں اساتذہ کی تربیت کے صوبائی اور وفاقی سطح پر ادارے کام کر رہے ہیں۔ آنے والے دور میں اساتذہ کو چیلنچز کا سامنا کرنا پڑے گا اس میں ورچوئل ایجوکیشن، پیس ایجوکیشن، ماحولیاتی تعلیم شامل ہے اور اس سارے چیلنجز کو سامنے رکھتے کو اساتذہ کی تربیت ضروری ہو گئی ہے اور ساتھ ساتھ بچوں کی اخلاقی تربیت ہر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری میں شعبہ تعلیم میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صائمہ محمود کا کہنا تھا کہ استاد ایک ذی شعور اور ذی وقار قوم کی تعمیر کرسکتا ہے۔ استاد ایک رہنما ہے۔ استاد، انسان میں شعور پیدا کرکے اسے صحیح اور غلط کی پہچان سکھاتا ہے۔ بچوں کی شخصیت کو نکھارتا ہے۔ اور انہیں اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ہر کام کو اچھی طرح انجام دیتا ہے۔ ایک اچھے استاد کی موجودہ دور سے ہم ہنگ تعلیم و تربیت کے لیے تربیت بہت ضروری ہے۔ اْسی طرح ایک اچھا اور دور جدید سے ہم آہنگ انسان بنانے کے لیے ایک اچھا استاد ضروری ہے۔استاد کو جدید طریقہ تدریس سے واقف ہونا بے حد ضروری ہے۔ اساتذہ کا کام صرف اسکول جا کر صرف بچوں کو پڑھانا نہیں بلکہ اسے مختلف وسائل کو استعمال کرتے ہوئے بچوں کی تمام صلاحیتوں کو اجاگر بھی کرنا ہے اور وسائل کی عدم دستیابی میں بھی پڑھانے اور تربیت کرنے کا سلیقہ آنا چاہیے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر تربیت اساتذہ کے پروگراموں میں موجودہ صدی کے مطابق اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تدریسی مہارتوں کے ساتھ ساتھ رویوں میں بھی تبدیلی پیدا کی جائے۔ طریقہ تدریس، تھیوری اور پریکٹس دونوں کا خوبصورت امتزاج ہو۔ اس طرح اساتذہ اور تعلیمی نظام کو جدید بنیادوں پر استوار کرکے عملی اقدام کرسکتے ہیں۔گزشتہ کئی برسوں سے شعبہ تربیت اساتذہ سے وابستہ اور ڈائریکٹر TEACH میڈ م کنول فواد کا کہنا تھاکہ استاد کا سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ وہ بچے کو زندگی کے ہر امتحان میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لیے تیار کرے۔ جس کے لیے بچے کی علمی زندگی کے ساتھ ساتھ عملی زندگی پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ بچے کی مکمل اور بھرپور نشوونما کے لیے تعلیمی اور حقیقی زندگی کے درمیان تعلق اور ربط ناگزیر ہے۔ موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ استاد نہ صرف بچے کی جبلت کے بارے میں جانے بلکہ اس کی تربیت کے طریقہ کار سے بھی مکمل واقفیت رکھتا ہو۔ دور جدید میں جہاں ٹیکنالوجی نے رابطوں کو آسان اور تیز کیا ہے وہاں ساتھ ہی ساتھ سماجی اور جذباتی تعلقات کو کمزور کردیا ہے۔ جیسے جیسے دنیا کے دروازے کھلتے چلے جارہے ہیں ویسے ہی باہمی رابطوں کا فن، تخلیقی اور تنقیدی سوچ کی اہمیت اور سوجھ بوجھ میں کمال رکھنے کے فن کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے۔ نئے دور کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے اور معاشرے کا کارآمد فرد بننے کے لیے تاحیات قائم رہنے والی مہارتوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسکول ہی وہ جگہ ہے جہاں بچوں کی جبلت کی بھرپور نشوونما اور تربیت کی جاسکتی ہے۔ بچہ جب اپنے ہم عصروں کے ساتھ کھیل کود اور دیگر سرگرمیوں میں مصروف ہوتا ہے اس وقت ایک تربیت یافتہ استاد ہی ماہرانہ طریقوں سے بچوں کو ایسے مواقع فراہم کرتا ہے جہاں بچے کی گروہی جبلت کو نکھارا جاسکے۔ ایک ماہر استاد ہی بچوںکے علمی تجربات ان کے عملی تجربات سے جوڑ سکتا ہے۔