تعلیمی اداروں میں جو بویا وہی کاٹ رہے ہیں

488

پاکستان میں سیاست کی جڑیں کاٹنے والاسب سے بڑا کارنامہ جو انجام دیا گیا وہ پاکستان کے تعلیمی اداروں سے طلبہ یونینوں کا خاتمہ تھا ۔ ایٹمی پروگرام ، افغانستان سے سوویت یونین کا انخلاء اور مشرق وسطیٰ وغیرہ میں پاکستانی اثر و نفوذ وغیرہ تو کوئی بھی حکمران کر سکتا تھا جو بھی ہوتا اس کو یہ دعائیں مل ہی جاتیں لیکن پاکستانی نظام پر جتنی مضبوط گرفت جنرل ضیاء کی تھی اس کی روشنی میں یہ کام وہی کر سکتے تھے اور کر گئے ۔ جرل ضیاء نے بھٹو کے ساتھیوں ایوب خان کی حکومت کے خاتمے اور بھٹو حکومت کے خاتمے کا گہرا جائزہ لیا دونوں میںطلبہ اور مزدور آگے آگے تھے ۔ آمرانہ حکومت نے دونوں شعبوں کا بیڑا غرق کیا ۔ 1984ء میں پابندی کا جواز یہ بنایا گیا تھا کہ تعلیی اداروں میں بد امنی ہوتی ہے جھگڑے ہوتے ہیں لیکن علاج بالمثل کے قائل آمر حکمرانوں نے طلبہ تنظیمیں ختم کرنے میں ناکامی پر لسانی اور علاقائی تنظیمں بنا کر انہیں تعلیمی اداروں میں خوب ترقی دی … اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے ۔یعنی جو بویا گیا وہ فصل قوم مسلسل کاٹ رہی ہے ۔ 1969ء میں ڈھاکا یونیورسٹی میں پہلا طالب علم شہید ہوا وہ اسلامی جمعیت طلبہ کا عبدالمالک تھا ۔ 1981ء میں جامعہ کراچی میں حافظ محمد اسلم کو پیپلز پارٹی کی غیر قانونی تنظیم الذوالفقار کے لیڈر سلام اللہ عرف ٹیپو نے قتل کیا اور اسی طرح پنجاب یونیورسٹی اور فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں بھی اسلامی جمعیت طلبہ کے افراد قتل ہوئے ۔ پابندی سے پہلے یہ چار طلبہ قتل ہوئے ۔ لیکن طلبہ یونینوں پر پابندی کے ساتھ ہی تعلیمی اداروں میں لسانی اور علاقائی تنظیموں کا راج ہو گیا ۔ قیام پاکستان کے 37 برس کے دوران تعلیمی اداروں میں یونینوں یا تنظیموں کے تصادم میں یا بیرونی قوتوں کے حملوں میں مجموعی طور پر چار طلبہ کے قتل کے واقعات ہوئے لیکن اس پابندی کے بعد اہم اور بڑے تعلیمی اداروں میں رینجرز اور پولیس کے کنٹرول کے بعد صرف11برس میں 37 طلبہ شہید ہوگئے ۔ فیصلہ اور جواز دونوں غلط ثابت ہو گئے ۔ اور اب بھی تعداد سیکڑوں میں ہے ۔
اس نقصان کو سیاسی جماعتوں میں ان لوگوں نے ضرور محسوس کیا جو اس نرسری کی اہمیت سے واقف تھے ۔ پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے طلبہ یونین بحال کرنے کا اعلان کیا لیکن رضا ربانی جیسے رہنمائوں کی وہاں موجودگی کے باوجود فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا ۔ مسلم لیگ ن کا پورا دور اس فیصلے پر عمل نہیں کرا سکا ۔ اب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اس پارٹی میں بھی طلبہ تنظیموں سے خصوصاً اسلامی جمعیت طلبہ سے تربیت یافتہ لوگ ہیں ۔ لیکن طلبہ یونینوں پر پابندی کے 36برس کے بعد اگر جائزہ لیا جائے کہ اس کے نتیجے میں قوم نے کیا کھویا اور کیا پایا تو اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستانی قوم کتنے بڑے خسارے میں ہے ۔ آج انگریزی تو کجا اردو کے مسودے بھی نہیں پڑھے جا سکتے ۔ جس قسم کے لوگ اسمبلیوں اور پارٹیوں کی قیادت پر آ گئے ہیں ان کا حال یہ ہے کہ اب ٹی وی ٹاک شو میں بھی گالم گلوچ ہوتی ہے اوراسمبلیوںمیں بھی چور چور کے نعرے ۔ ٹی وی کے خبر نامے الزام نامے بن گئے ہیں۔ ایک رہنما دوسرے پر الزام لگاتا ہے جواب میں اس کے باپ بھائی کو الزام دیا جاتا ہے ۔ بغیر ثبوت کے کسی کو بھی لٹیرا کہا جاتا ہے اور کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ پہلے کوئی بد عنوانی میں ملوث ہو تو پارٹی شرمندہ ہوتی تھی اب یہ حال ہے کہ تینوں بڑی پارٹیوں، پی پی ، مسلم لیگ اور اب پی ٹی آئی حکمران ہے ،ان سب میں بد عنوانی کے پہاڑ کھڑے ہیں اور ہر پارٹی اپنے بد عنوان کی حمایت پر کمر بستہ ہے ۔ جبکہ طلبہ یونین کی موجودگی میں کسی اشتہار میں تصویر آ جانے پر شفیع نقی جامعی جیسے طالب علم کو جمعیت سے فارغ کر دیا گیا تھا ۔ فیصلے اور اس کے درست یا غلط ہونے سے بحث نہیں ۔ خود کو عہدے کے لیے پیش کرنے والے کو محروم کر دیا جاتا تھا ۔
آج تو صورتحال اتنی خراب ہے کہ کسی کے قبضے سے شراب نکل آئے تو اسے شہد ثابت کر دیا جاتا ہے ۔ پھر حکومت ملنے پر وزارت کا تحفہ دیا جاتا ہے ۔ سندھ کے سابق وزیر کی بوتل سے بھی شہد کی تصدیق ہی ہو سکی ہے ۔ ’’سابق ‘‘نثار صاحب تو بوتل سونگھ کر بتا رہے تھے کہ یہ شراب ہے لیکن عدالتی نظام میں تو ثبوت درکار ہوتا ہے ۔ یہ ساری خرابی صرف اس لیے ہے کہ کوئی حکمران طلبہ یونینوں کو بحال کرنے پر تیار نہیں ۔ اگر یہی حالات رہے تو ایک مرتبہ پھر کالے ، پاجامے ،بھرم اور ٹیررکی حکمرانی ہو گی ۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی تو طلبہ یونینوں کے حوالے سے کچھ امید رکھتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں ان کو کچھ حمایت حاصل ہو گی اور ان کی حمایت یافتہ طلبہ یونینوں کو پذیرائی ملے گی لیکن تحریک انصاف کو اس کام میں بہت وقت لگے گا ۔ اصل بات یہ ہے کہ 1974ء سے 77 تک اسلامی جمعیت طلبہ کی کامیابیوں نے تمام آمروں اور آمروں کے پروردہ سیاستدانوں کے ہوش اڑا دیے تھے ۔ آج بھی اگر یہ پابندی ختم ہو گئی تو پہلا خطرہ اسلامی جمعیت طلبہ ہی ہو گی ۔ اگر صرف جامعہ کراچی کی مثال دی جائے تو طلبہ یونین130 بسوں کا نظام چلاتی تھی ،بجٹ بناتی تھی ۔ سیمسٹر کا نظام چلاتی تھی ، طلبہ کے نوٹس ، ان کے شعبوں میں لائبریری ، کتابوں اور کلاسوں کی صفائی تک کا نظام چلاتی تھی ۔ آج یونین نہیں تو جامعہ کے طلبہ یتیم بنے ہوئے ہیں ۔ سلور جوبلی مسکن گیٹ اور شیخ زاید گیٹ سے پیدل خوارہو کر کلاسوں میں جاتے ہیں ۔ رینجرز کی دہشت سے طلبہ اساتذہ کی سیاست کا شکار ہیں کوئی پرسان حال نہیں ۔ پتا نہیں یہ کس کے بچے ہیں ۔اسی لیے یونین ختم کی گئی تھی ۔ ملک بھر کے اور خصوصاً کراچی کے اہم تعلیمی ادارے رینجرز کا مسکن بنے ہوئے ہیں ۔راستے بند کیے گئے ہیں ایسے واقعات اور اقدامات پر عدالت عظمیٰ ریمارکس بھی نہیں دیتی ۔ایک اہم نکتہ ہے جسے سیاسی جماعتوں کو بھی اٹھانا چاہیے ، طلبہ یونین تعلیم نہیں ہے کہ اسے صوبائی معاملہ قرار دیا جائے ۔ آئین کے تحت یہ مرکزی معاملہ ہے اور پورے پاکستان کے طلبہ کا حق ہے ۔ اسے وفاق کا معاملہ قرار دیا جانا چاہئے۔