جمعیت اور طلبہ یونین

298

 

 

 

تین دہائیوں سے زائد عرصہ گزر گیا جب سے طلبہ یونینز پابندی کا شکار ہیں۔ یہ پابندی ضیاء الحق صاحب کے دور میں لگی مگر آج تک کئی جمہوری حکومتیں گزرنے کے باوجود بھی بحال نہ ہوسکی۔ اس وقت جب طلبہ یونین پر پابندی لگی تو تقریبا تمام طلبہ تنظیمیں تتر بتر ہوگئیں سوائے چند ایک کے۔ بائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں تو اس پابندی کے بعد اکثریت میں غائب ہی رہیں، مگر دائیں بازو کی تنظیموں میں سے بھی چند نے ہی اپنی تنظیم مستحکم رکھی اور طلبہ یونین کی بحالی کے لیے آواز بھی بلند کرتی رہیں۔ ان چند ایک میں اسلامی جمعیت طلبہ سرفہرست ہے جنہوں نے طلبہ یونین کی بحالی کے لیے ہمیشہ آواز اٹھائی اور اس کے لیے عملی کوششیں بھی کیں۔ جمعیت کے ذمہ داران اور کارکنان نے تو یونین بحالی کے لیے آواز اٹھانے کے جرم کی پاداش میں جیلیں بھی کاٹیں، مگر اس وقت باقی تمام طلبہ تنظیمیں منظر عام سے غائب رہیں۔ جمیعت باقاعدہ منظم بھی رہی اور اس نے اپنی صحت مندانہ سرگرمیاں بھی جاری رکھیں اور طلباء مسائل کے اوپر بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا۔
گزشتہ دنوں سرخ کا نعرہ لئے بائیں بازو کے نمائندہ طلباء نکلے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بڑی تعداد میں طلبہ یونین کے حق میں آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔ سرخ کا نعرہ لگانے والے ان طلباء کا تعلق بائیں بازو کی نمائندہ تنظیموں سے ہے اور سبز کا نعرہ لگانے والے دائیں بازو کی طلبہ تنظیموں میں سے ابھی تک صرف اسلامی جمیعت طلبہ ہی ہے جس نے طلبہ یونین کے حق میں مضبوط آواز اٹھائی۔ ویسے تو سرخ اور سبز نظریات آپس میں متضاد ہیں مگر ان چند دنوں میں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے دونوں جانب سے دانش مندی اختیار کی گئی اور دونوں ہی جانب سے طلبہ یونین کے حق میں ہی آواز اٹھی اور کسی بھی آپسی اختلاف کی طرف توجہ نہ دی گئی۔ اور دونوں جانب سے مطالبہ یہی رہا کہ طلبہ یونین کو ایک ضابطہ اخلاق بناکر بحال کیا جائے تاکہ یونین سازی جو کہ طلبہ کا بنیادی حق ہے وہ انہیں مل سکے۔
طلبہ یونین کا بحال ہونا جمہوری روایات اور جمہوریت کا تسلسل بحال رکھنے کے لئے نہایت ضروری ہے، یونینز سیاست کی نرسری ہیں جہاں سے نکلنے والے طلباء ملک و قوم کے لئے نہایت مفید اور کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستان میں موجود دور حاضر کے نامور سیاستدانوں میں اکثریت زمانہ طالبعلمی میں کسی نہ کسی طلبہ تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں اور باقاعدہ متحرک طریقوں سے طلباء سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ بلکہ موجودہ حکومتی جماعت میں بھی 60 فیصد سے زائد ممبران طلبہ تنظیموں میں رہ چکے ہیں۔ اس بنا پر ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ طلبہ کا یہ بنیادی حق ریاست کے لیے بھی انتہائی سود مند ہے جہاں سے مستقبل کی قیادت کے لیے کمک کی تیاری ہوتی رہتی ہے۔ طلبہ یونینز طلبہ کے بنیادی حق کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست کے لیے نہایت ضروری بلکہ ناگزیر ہیں، ان کے نا ہونے سے موروثی سیاست کو فروغ ملتا ہے۔ اگر طلبہ یونینز بحال ہوں اور باقاعدہ مستقبل کے لیے ملکی قیادت تیار ہو رہی ہو تو موروثیت بڑی حد تک پیچھے چلی جاتی ہے۔ ان یونینز میں طلبہ اور ان کی صلاحیتیں مزید نکھرتی ہیں اور ان کو مستقبل میں کام کرنے کے حوالے سے باقاعدہ تیاری ملتی ہے۔
سرخ اور سبز کی آواز موجودہ حالات میں تو صرف یہی ہے کہ یونینز بحال کی جائیں۔ بعد میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات سے بچنا بھی ممکن ہے اگر ایک مکمل ضابطہ بنایا جائے اور پھر تمام طلبہ تنظیموں کو اس کا پابند بنایا جائے۔ تو مستقبل میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات سے بھی بچا جاسکتا ہے اور آپ طلبہ کو ان کا بنیادی حق بھی فراہم کر سکتے ہیں، جو ایک بڑے عرصے سے سلب ہو چکا ہے۔ مگر اب اس پر غوروفکر کی نہایت ضرورت ہے جس کے تادیر ثمرات بھی ہمیں میسر آ سکتے ہیں۔
رہا سبز اور سرخ کا مسئلہ تو پچھلے دنوں جب سرخ تحریک اٹھی تو جو ایک فطری ردعمل بھی کسی طرف سے بن سکتا تھا وہ بھی نا بنا۔ مگر اسلامی جمعیت طلبہ اور اس کے ذمہ داران ایک بڑی حد تک قابل تعریف ہیں کہ جنہوں نے کشادہ دل سے طلبہ یونین پر اٹھنے والی بات کو اپنایا نا کے مخالف نظریے کے اوپر کوئی چیز کی۔ وہ دانشمندی سے اس بات پر آئے کہ یونین کو بحال کیا جائے، ان کا باقاعدہ مطالبہ بھی یہی رہا کہ ایک ضابطہ اخلاق بنا دیا جائے تاکہ کوئی بھی ناخوشگوار سانحہ نہ بنے اور طلبہ کو ان کا حق بھی مل جائے۔ اس حوالے سے سبز والے قابل تعریف ضرور ہیں کہ انہوں نے اپنے بنیادی حق پر آواز اٹھانا ضروری سمجھا نہ کے آپسی اختلافات میں پڑنا۔ بالآخر جب سب سیاسی جماعتیں بھی اس بات پر متفق ہیں کہ طلبہ یونینز بحال ہونی چاہیے ہیں تو اس بابت عملی اقدام بھی اٹھایا جانا چاہیے اب۔