طلبہ سیاست اور تحریک پاکستان

613

 

طلبہ یونینز پرپابندی سے تعلیمی اداروں کے اندر تشدد کی سیاست نے جنم لیا طلبہ یونینز جو کسی زمانے میں درس گاہوں کی شان ہوا کرتی تھیں گزشتہ تین دہائیوں سے پابندی کا شکار ہیں ضیا ء الحق کے آمرانہ فیصلے نے درس گاہوں میں تشدد کوفروغ دیا جس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں‘ حالانکہ یہ یونینز طلبہ کی کردار سازی میں نہایت اہم کردار ادا کرتی تھیں ۔طلبہ تنظیمیں لیڈر شپ کی نرسریاں تھیں اور طلبہ یونین ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑ ھانے کے لیے مختلف جماعتوں کے طلبہ کے درمیان بحث و مباحثے منعقد کرواتی تھیں جس سے دوسروں کے نظریات سمجھنے اور مخالفت برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا تھا‘ سالانہ الیکشن کے ذریعے طلبہ کو سیکھنے کاموقع ملتا تھا کہ الیکشن مہم کیسے چلائی جاتی ہے اور اپنے امیدوار کے حق میں ووٹر زکو کیسے قائل کیاجاتا ہے‘ طلبہ یونینوں کے ذریعے ہی نامور سیاستداں منظر پر آئے‘تحریک پاکستان میںاسلامی جمعیت طلبہ نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا لیکن ان یونینوں پرپابندی سے طلبہ کی قوت ختم ہوگئی، ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں ختم ہونے سے ان کارجحان تشدد اور دوسرے فضول عوامل کی طرف ہوگیا جو آئے دن ہمیں درس گاہوں میں جھگڑوں کی صورت میںنظر آتا ہے، ضیا ء الحق کے دور سے آج تک جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے اس مسئلے پر سنجید گی پر مظاہرہ نہیں کیا۔آج طلبہ یونینز پر پابندی کے35سال مکمل ہو گئے ہیں۔ طلبہ و طالبات35سال سے ذہنی اور سیاسی تربیت سے محروم ہیں۔ آج کا طالب علم قائدانہ صلاحیتوں سے محروم ہے۔ ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ طلبہ یونین نہ ہونے کی وجہ سے رواداری جیسی حسین روایت سے تعلیمی ادارے محروم ہو چکے ہیں۔ طلبہ یونینز پر 35سال پہلے پابندی لگانے والے آج اس دنیا میںتو نہیں ہیں، مگر جمہوری نرسری سے محروم طلبہ آج بھی انہیں اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرتے۔ طلبہ یونین کو امن عامہ کا مسئلہ قرار دینے والے آج جب تعلیمی اداروں میں بدامنی دیکھتے ہیں۔لسانیت، مذہبی فرقہ واریت تیزی سے پروان چڑھتی دیکھتے ہیں تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔
امن عامہ کو جواز بنایا گیا تھا۔آج تعلیمی اداروں میں جھگڑے ہیں۔ صوبائی،لسانیت، فرقہ واریت ہے برادری ازم نے ڈیرے ڈال لیے ہیں پھر کون سے عوامل تھے جن کی وجہ سے طلبہ کو جمہوری حقوق سے محروم کیا گیا۔طلبہ یونین پر پابندی لگانے والوں نے بنا سوچے سمجھے،بنا جائزہ لیے بغیر کسی سروے کے سنی سنائی باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے سیاست کی نرسری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھاپاکستانی طلبہ کو حب الوطنی کے جذبے سے سرشار کرنے،نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کا خوگر بنانے کے مواقع سے محروم کردیا گیاتھا۔ طلبہ یونینز تعلیمی اداروں کی پہچان ہوتی تھیں طلبہ کی جان ہوا کرتی تھیں طلبہ و طالبات کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی پہچان ہوا کرتی تھیں۔ رواداری، برداشت، اخلاقی قدریں پروان چڑھاتی تھیں۔ طلبہ یونین کا کمال ہے کہ پاکستان میں نامور اور قد آور شخصیات پیدا ہوئیں جو اس وقت دنیا بھر میں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ فارن آفس ہو،تحقیقی ادارے ہوں، صحافت ہو یا سیاست ہر میدان میں طلبہ یونینز نے منفرد سپوت قوم کے سپردکیے ہیں۔ہزاروں نام ایسے ہیں جن کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے سینکڑوں افراداس وقت پولیس، بیورو کریسی میںاعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ نامور ڈاکٹرز انجینئرز ہیں جو ملک قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ سب طلبہ یونینز کی پیداوار ہیں۔ تعلیمی اداروں میں عدم تشدد کی خواہش ہر محب وطن پاکستانی کی ہے۔
آج ہمیںچاہیے کہ ہم سمجھیں کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو طلبہ کو غیر نصابی سرگرمیوں سے محروم رکھنا چاہتی ہیں۔کون سی قوتیں ہیں جو ملک میں طلبہ یونین نہ ہونے کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں تیزی سے پروان چڑھتا تشدد، بدامنی لسانیت، فرقہ واریت صوبائیت کی لہر کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی ہیں۔ حالانکہ امریکہ میں طلبہ یونین کے نام پر تنظیمیں کام کرتی ہے۔ آسٹریلیا کی ہر یونیورسٹی میں دو طلبہ تنظیمیں موجود ہیںاور انتہائی سرگرم اور فعال کردار ادا کررہی ہیں۔ اخبار، وکالت، سیاسی، معاشی، معاشرتی معاملات میں کردار ادا کر رہی ہیں۔ آذربائیجان میں طلبہ یونین (ASO) کے نام سے کام کررہی ہیں۔ چین میںا سٹوڈنٹس لیگ کام کررہی ہیں۔ فلپائن، سری لنکا، میانمار، افریقہ، یورپ، ڈنمارک، جرمنی، یونان، آئر لینڈ، فرانس یونان اور بہت سے ممالک میں طلبہ یونین موجود ہیں اور اپنے اپنے معاشرے کو سنوارنے میں موثر کردار ادا کر رہی ہیں۔ایسی تنظیمیں جو اپنے مقاصد سے پیچھے ہٹیں۔ ان کا نام تک ختم ہو گیا جو طلبہ تنظیمیں تسلسل سے کام کر رہی ہیں وہ بگاڑ کی بجائے معاشرے کو سنوار رہی ہیں۔ ان میں اسلامی جمعیت طلبہ سرفہرست ہے۔ ملک گیر تنظیم ہونے اور فرقہ واریت سے پاک ہونے، لسانیت اور برادری ازم سے پاک ہونے کی وجہ سے آج بھی تعلیمی اداروں میں پابندیوں کے باوجود اپنے منشور کے مطابق بڑے پیمانے پر طلبہ کی کردار سازی اور تعلیمی اداروں میں امن یکجہتی اور اسلامی شعار کے فروغ کے لئے سرگرم ہے۔ اس تنظیم کا مقصد بھی مسلمانوں میں آگاہی اور سیاسی شعور بیدار کرنا تھا قیام پاکستان تک اور پاکستان قائم ہونے کے بعد طلبہ تنظیموں کا کردار قابل ستائش رہا ہے۔ 1973ء کے آئین میں طلبہ یونین کو تعلیمی اداروں کے لییناگزیر قرار دیا گیا ہے۔35سالہ پابندی کے دور کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ طلبہ تنظیموں کے خود احتسابی عمل کے ساتھ طلبہ کے جمہوری حقوق کی بحالی کے لیے اگر قواعد و ضوابط نئے بنانے کی ضرورت ہے تو بنانے چاہئیں، مگر طلبہ و طالبات کو جمہوری حقوق ملنے چاہئیں، تاکہ وہ معاشرے کو باصلاحیت مقرر، صالح قیادت دے سکیں۔لہٰذااب ضرورت اس بات کی ہے کہ ایوان بالا کے ارکان پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے جو طلبہ یونینز کی بحالی سے ان کے لیے ایک جامع دستور و منشور اور قوانین و ضوابط طلبہ رہنمائوں کے مشورے کے ساتھ سامنے لائے اور پھر ان شرائط کی روشنی میں طلبہ یونینز کو بحال کیا جائے۔تحریک پاکستان میں طلبہ یونینز نے مثالی کردار ادا کیا،اُس وقت ایک پُرجوش اور مضبوط تنظیم کی ضرورت تھی، جو الگ وطن کے حصول کے لیے طلبہ کی ذہن سازی کرے، جلسے و جلوسوں کا انتظام کرے لیکن آج ہم نے کوئی نیا وطن حاصل نہیں کرنا بلکہ اپنے ملک کو بچانے کے ساتھ ترقی کی بلندیوں پر لے جانا ہے۔ اور ترقی کی بلندیوں پر پہنچنے کا راستہ ڈنڈے اور فائرنگ سے نہیں بلکہ کتاب اور قلم کے ذریعے ملے گا۔اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا کہ جب ہم نظم وضبط کے ساتھ طلبہ سیاست کا ایک بار پھر سے قیام عمل میں لائیں گے۔