PIAایمپلائز یونین : پیاسی کی کہانی (قسط11)

364

پی آی اے کی ٹریڈ یونین کی تاریخ میں 1980ء اور 1981ء اہم ترین دور اور اقدامات کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
-1ریفرنڈم میں مقدس ترین نشان کا استعمال
-2مارپیٹ اور تشدد کے متعدد واقعات
-3مارشل لاء ریگولیشن (MLR-51/52) کا نفاذ
-4ٹریڈ یونین پر پابندیاں، گرفتاریاں اور ملازمین کو ملازمتوں سے نکالا جانا
پہلے ہم PIA میں پانچویں ریفرنڈم کا ذکر کرتے ہیں۔ 27 فروری 78ء میں چوتھا ریفرنڈم ہوا۔ ریفرنڈم کے بعد کامیاب ٹریڈ یونین کی سودا کاری حیثیت دو سال کے لیے ہوا کرتی ہے۔ یوپیائی نے 13 فروری 1980ء کو ریفرنڈم کرانے کے لیے NIRC میں درخواست دے دی۔ 17 فروری کو پیاسی کی مجلس عاملہ میں کارکردگی اور ریفرنڈم کے انعقاد کے معاملہ پر رات گئے تک غور ہوتا رہا۔ اس میں نیشنل لیبر فیڈریشن کے شفیع ملک نے بھی شرکت کی۔ کچھ شکایات اور رویہ کی نادرستگی اور ورکرز اور ساتھیوں کو نظر انداز کردینے پر بھی بات ہوئی۔ مدت کی تکمیل پر پیاسی نے ازخود 27 فروری کو NIRC میں ریفرنڈم کے انعقاد کے لیے درخواست دے دی۔ یہ انوکھا قدم تھا کہ CBA خود ریفرنڈم کلیم کررہی تھی۔ 8 مارچ 80ء کو پیاسی کی کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں ملک شفیع اور عباس باوزیر نے بھی شرکت کی۔ 24 مارچ کو NIRC نے اسلام آباد میں PIA کی تینوں ٹریڈ یونین کی میٹنگ بلائی۔ جس میں پیاسی کی نمائندگی رفیق احمد (GS) نے اور یوپیائی کی اکبر نصیر الدین نے کی۔ پیاسی کو انتخابی نشان ’’شمع‘‘ یوپیائی کو ’’گنبد خضرا اور مینار‘‘ اور ایوپیا کو ’’مشعل‘‘ الاٹ کیے گئے۔ رفیق احمد نے اسی شام اسلام آباد سے کراچی آکر پیاسی کی کوآرڈینیشن کمیٹی کی میٹنگ میں تفصیلات بتائیں۔ راقم الحروف نے اس پر سخت اعتراض کیا اور کہا کہ ’’گنبد خضرا‘‘ انتہائی قابل تعظیم اور مذہبی نشان ہے اسے انتخابی مہم اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اگر اسے تبدیل نہ کرایا گیا تو پیاسی اس نشان کی تاب نہ لاسکے گی۔ اس کو تبدیل کرایا جائے پھر ہم نے اس مسئلے پر شفیع ملک اور عباس باوزیر سے بھی ملاقات اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ چنانچہ NIRC سے رابطہ کیا گیا۔ انہوں نے اعتراض کا نوٹس تو لیا مگر ’’گنبد خضرا اور مینار‘‘ کی جگہ ’’گنبد‘‘ کردیا۔ یہ عرضداشت لے کر NIRC میں برجیس احمد اور رفیق احمد گئے تھے۔ میرا اعتراض بدستور رہا کیونکہ یوپیائی کی صرف اس انتخابی نشان کی وجہ سے کامیابی نظر آرہی تھی۔
NIRC نے PIA میں 27 اپریل 80ء بروز اتوار کو پانچواں ریفرنڈم منعقد کرانے کا فیصلہ کیا (13-4-80) 19 اپریل کو یوپیائی اور ایوپیا نے پیاسی کے خلاف انتخابی معاہدہ کرلیا اور ایوپیا نے یوپیائی کی حمایت کا اعلان کرکے خود کو ریفرنڈم سے الگ کردیا۔ اس کے باوجود ہر چیز پیاسی کے حق میں تھی مگر مجھے صرف اور صرف یوپیائی کے انتخابی نشان ’’گنبد‘‘ کی وجہ سے پیاسی کے لیے خطرہ لگ رہا تھا۔ چنانچہ کچھ تجاویز لے کر اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ عباس باوزیر اور مجید صابر شیخ سابقہ جنرل سیکرٹری سے پھر ملاقات کی۔ میری رائے تو یہاں تک تھی کہ اگر NIRC یہ نشان گنبد تبدیل نہیں کرتی تو پیاسی ریفرنڈم کا بائیکاٹ کردے۔ رائے بے سود رہی۔
27 اپریل 1980ء کو PIA میں پانچواں ریفرنڈم ہوا۔ دو یونینیں پیاسی اور یوپیائی مدمقابل۔ یہ ریفرنڈم یوپیائی نے جیت لیا اور یوپیائی CBA بن گئی۔ (اس وقت پیاسی کے صدر برجیس احمد اور یوپیائی کے صدر اکبر نصیر الدین تھے)۔
اب ایک فتنہ پرور دور کا آغاز ہوتا ہے۔
پیاسی اور یوپیائی میں تلخیاں اور جھگڑے جنوری 80ء سے ہی ہونے لگے تھے۔ 27 جنوری کو دونوں یونینوں کے مابین تصادم ہوا۔ دونوں جانب سے تین تین افراد گرفتار بھی ہوئے (ان میں پیاسی کے اعظم چودھریVP بھی تھے)۔ چند دنوں بعد رہائی ملی۔ پھر 17 فروری کو لاہور میں جھگڑا ہوا۔ 18 فروری کو PIA کالونی کے بیچلر بلاک (کراچی) میں یوپیائی کے اصغر وغیرہ اور پیاسی کے افضل مرزا اور ربانی کے مابین لڑائی ہوئی۔ مارچ اور اپریل میں گاہے گاہے ہلکے پھلکے ٹاکرے ہوتے رہے۔
پھر یوں ہوا کہ اچانک (غالباً کسی منصوبے کے تحت) یوپیائی والوں نے شدت کے ساتھ پیاسی کے عہدیداران اور ورکرز کو زدوکوب کرنا اور تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ 5 مئی سے 8 مئی (4روز) تک مسلسل مارپیٹ کرتے رہے۔ پیاسی کے آفتاب ربانی، سکندر حامد بھٹی، محمد یوسف اور رشید کو اتنا مارا پیٹا کہ ربانی اور سکندر حامد کئی روز نوید کلینک میں داخل رہے۔ بکنگ آفس میں کوریجو کے ساتھ انسانیت سوز اور بہیمانہ سلوک کیا گیا۔ چند روز کے وقفے سے تشدد اور مارپیٹ کا سلسلہ پھر شروع کیا گیا اور کچھ زیادہ ہی زور و شور سے۔ افضل مرزا کو دوبارہ رفیق احمد (GS) MIR کے دفتر کے سامنے برجیس احمد (صدر) عتیق، آصف مسعود پر بہیمانہ تشدد کیا گیا۔ برجیس احمد ظہر کی نماز کے بعد مسجد سے باہر آئے تو ہیڈ آفس کے قریب ان پر تشدد کیا۔ ان کے سر میں 8/9 ٹانکے آئے اور کئی روز AO کلینک میں داخل رہے۔ سکندر حامد کو مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا گیا عبدالعزیز کوریجو کو اغوا کرلیا گیا۔ آئوٹ اسٹیشنز پر بھی تشددانہ کارروائیاں کی گئیں۔ میں نے ابراہیم صدیقی سے بات کی انہوں نے کہا کہ اس سے اچھا ہے کہ PIA میں یونین ہی نہ ہو۔
پیاسی کے سامنے دو راستے تھے۔ اول یہ کہ ظلم و زیادتی کا اسی انداز میں مقابلہ کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ قانونی کارروائی کی جائے۔ پیاسی نے قانونی کارروائی کا راستہ اپنایا اور تصادم کی راہ سے گریز کیا۔ چنانچہ ایئرپورٹ تھانے میں رپورٹ درج کرائیں۔ PIA، MLA اور دیگر متعلقہ محکموں کو ٹیلیگرام کے ذریعے بتایا گیا۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ سب تماشا دیکھ رہے تھے اور یہ بھی جان رہے تھے کہ یوپیائی (CBA) کے لوگ لوٹ کھسوٹ OCS مالی فوائد اور رکاوٹ بننے والے انتظامیہ کے افسران پر بھی تشدد پر اُتر آئے ہیں۔ PIA کے اسپیشلسٹ سرجن جمعہ سے بھی بدتمیزی کی گئی۔ اس واقعے کے بعد PIA میڈیکل سیکشن میں یونین سرگرمیوں پر پابندی لگادی گئی۔ (19/8/80)
فروری 1981ء میں پی آئی اے آفیسرز ایسوسی ایشن (ساسا) کے الیکشن ہوئے۔ ایوپیا کے حامی افسران حسیب احسن کا پینل کامیاب ہوا۔ ابراہیم صدیقی، عقیل صدیقی پینل ناکام رہا۔
PIA کی انتظامیہ اور جنوری 1981ء میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ PIA کے چیئرمین انور جمال کو رخصت کرکے ان کی جگہ ڈیفنس سیکرٹری میجر جنرل رحیم خان کو چیئرمین مقرر کیا گیا۔ (ایم ایم سلیم پہلے سے MD چلے آرہے تھے)۔ 5 ڈائریکٹرز کو سبکدوش کردیا گیا۔ اور بریگیڈیئر منٹو کو ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن مقرر کیا گیا۔
23 مئی 1981ء کو یوپیائی کے عہدیداران کے اوور ٹائم پر پابندی کے خلاف یونین نے ٹریفک میں (ایئرپورٹ) ’’گوسلو‘‘ کردیا۔ ریفرنڈم کے تقریباً سوا سال بعد PIA میں پہلے MLR-51 نافذ کیا گیا اور پھر 15 اگست 1981ء کو MLR-52 لگادیا گیا۔ تمام یونینز اور ایسوسی ایشنز پر پابندی لگادی گئی۔ یونینوں سے وابستہ افراد اور دیگر ملازمین کی PIA سے سبکدوشی کا سلسلہ شروع ہوا۔ دوسرا سانحہ مارچ 1981ء کے پہلے ہفتے میں PIA کا بوئنگ طیارہ اغوا کرلیا گیا۔ پہلے لیبیا لے جایا گیا اور پھر دمشق اور کابل۔ اغوا کاروں نے مطالبات منظور ہونے پر طیارہ اور مسافر رہا کردیے۔ایک بڑا حادثہ یہ ہوا کہ کراچی ایئرپورٹ پر بوئنگ ہینگر میں PIA کے DC-10 جہاز کو آگ لگ گئی (یا لگائی گئی) جس سے جل کر وہ خاکستر ہوگیا۔ (2 فروری 1981ء)12/9/81 تک پہلے 340، پھر 115 اور اس کے بعد 581 کُل 1036 ملازمین کو سبکدوش کرنے کا اعلان کیا گیا۔ 21/11/81 کو مزید 102 ملازمین کو سبکدوش کیا گیا۔ 14 ستمبر 81ء کو ملک اصغر یوپیائی کے ویلفیئر سیکرٹری کو ملٹری کورٹ سے ایک سال قید بامشقت اور 5 کوڑوں کی سزا ہوئی۔ الزام تھا کہ پی آئی اے کے منیجر انڈسٹریل ریلیشنز راجہ کو زدوکوب کیا تھا جس سے ان کا ایک دانت بھی ٹوٹ گیا تھا۔