تعلیمی ایمرجنسی پر عملدرآمد اور خصوصی اہداف بنا کر تعلیمی نقصان کا ازالہ ممکن ہے

894

کراچی(رپورٹ:حماد حسین)تعلیمی اداروں میں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ لازمی ہوگیا ،تعلیمی اداروں میں کو ہنگامی بنیاد پر ہفتے میں6 دن کلاسوں کا انعقاد، متبادل طریقہ تدریس اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ طریقہ تدریس کو سنجیدگی سے اپنانا ہوگا، تعلیمی پالیسی میں تسلسل، درسگاہوں کو تربیت اور حقیقی معنوں میں سیکھنے کا مرکز اور انہیں ریسرچ سینٹرز بنانے کی سمت پیش قدمی کرنی چاہیے۔ اساتذہ اس کو قومی ذمے داری سمجھتے ہو ئے اس ہنگامی صورتحال میں طلبہ کو زیادہ سے زیادہ وقت اور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کے چیئرمین پروفیسر سعید الدین، ڈائریکٹوریٹ آف پرائیوٹ انسٹی ٹیوشنز کی رجسٹرار رافعہ ملاح، فپواسا کے مرکزی جنرل سیکر ٹری ڈاکٹر کلیم اللہ، سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرار ایسوسی ایشن کراچی کے صدر منور عباس اور آل پرائیوٹ اسکول اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے چیئرمین حیدر علی نے نمائندہ جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کے چیئرمین پروفیسر سعید الدین کا کہنا تھا کہ کورونا وبا کی وجہ سے جو تعلیمی نقصان ہوا ہے ا س کا ازالہ مشکل ہے۔ اگر ہم کوشش کریں تو کافی حد تک اس کا ادراک کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں آن لائن تعلیم کا نظام پہلے سے موجود تھا کیونکہ ان کے پاس انٹرنیٹ سمیت دیگر تمام ذرائع حاصل ہیں مگر پاکستان جیسے ملک میں جہاں انٹرنیٹ کی سہولت اس طرح میسر نہیں ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں آن لائن تعلیم کا ویسے فائدہ نہیں ہو ا، جیسے یورپی ممالک میں ہواہے۔جو کلاس میں استاد بچوں کو پڑھا رہا ہوتا ہے اس کے مقابلے میں آن لائن تعلیم کچھ بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی جو تعلیمی نقصان کورونا وبا کی باعث وہ ہمارے ہاتھ میں نہیں تھا۔ اب تعلیمی اداروں میںایمرجنسی کا نفاذ لازمی ہو گیا ،تعلیمی ادارے ہنگامی بنیادوں پر کھولیںاور طلبہ و طالبات کو کلاسوں کے لیے بلائیںتاکہ تعلیمی ادارے کئی ماہ بند رہنے سے بچوں کا جو تعلیمی نقصان ہو اہے اس کا کچھ ازالہ کیا جاسکے۔ ہمیں تعلیمی اداروں میں کوروناسے بچاؤ کے جو احتیاط بتائیں گئی ہے اس پر سختی سے عمل کروائیں ناکہ تعلیمی ادارے متبادل دنوں میں تعلیم سلسلہ رکھیں۔اس سال کورس میں کمی بھی کی گئی ہے جس کے مطابق ہی بورڈ امتحانات کا انعقاد کریں گے ۔اور جو مضامین رہ جائیں گے وہ ہم اگلے تعلیمی سیشن میں طلبہ کو پڑھائیں گے۔ کچھ مضامین جو بالکل ختم کردیے ہیں۔اس بھی طلبہ کا نقصان ہوگا۔ہمیں چاہیے کہ جب حالات بہتر ہو تو رہ جانے والے مضامین کو میٹرک کے بعد اور فرسٹ ائر سے قبل چھٹیوں میں لازمی پڑھایا جائے۔اب جو نیا سیشن کا آغاز ہو گا اس میں ہر کسی کو جس میں اساتذہ۔تعلیمی ادارے اور والدین کو پہلے سے زیادہ محنت اور توجہ کے ساتھ بچوں کو پڑھانا پڑے گا۔اگر بچوں میں یہ کمی رہ گئی تو بچے بہت عرصے تک معاشرہ اس کا خمیازہ بھگتتا رہے گا۔ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں آن لائن سسٹم کو بہتر اور مضبوط کرنا ہے۔ ڈائریکٹوریٹ آف پرائیوٹ انسٹی ٹیوشنز کی رجسٹرار رفعیہ ملاح کا کہنا تھا کہ کورونا ہر شعبہ زندگی متاثر ہواہے۔تعلیمی ادارے ویران ہو گئے اور آن لائن کلاسز ہوئیںلیکن روایتی ماحول مفقود ہو گیااب جبکہ ایک بار پھر تعلیمی سلسلے کا آٖغاز ہو گیا تو اب یہ لمحہ فکر ہے کہ تعلیمی نقصان کا ازالہ کیسے ہو۔ہمیں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔اس کے لیے ہفتے میں 6 دن کلاسوں کا انعقاد،اتوار کے علاوہ تمام چھٹیاں منسوخ،نصاب کے منتخب اہم حصے طلبہ کو پڑھائیں، ہر بورڈ ماڈل پیپر تیار کرے،25نمبرکے زبانی امتحان ہوں، اساتذہ اپنی ذمے داری مزید دیانتداری اور تندہی سے انجام دیں اور جو بھی وقت ہے اس کو طلبہ کے مفاد میں استعمال کریں،طلبہ کو وقت کی اہمیت اور ان کو باور کرائیں کہ وہ پہلے سے زیادہ محنت اور توجہ تعلیم پر صرف کریںاور والدین سے مشاور ت اور طلبہ پر اعتماد ادارے کی کارکردگی سے تعلیمی نقصان کا ازالہ ممکن ہے۔ فپواسا کے مرکزی جنرل سیکر ٹری ڈاکٹر کلیم اللہ کا کہنا تھا حکومت کوشعبہ تعلیم زیادہ توجہ اور ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔تعلیمی اداروں میں تدریسی اوقات کار میں اضافہ کیا جائے تاکہ جو وقت ضائع ہو چکا ہے اس کا بھی ازالہ کیا جاسکے۔۔آل پرائیوٹ اسکول اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے چیئرمین حیدر علی کا کہنا تھا کہ بچوں کی تعلیم و تربیت بالکل معلق اور معطل ہو کر رہ گئی۔دوسری جانب لاکھوںبچے اسکولوں میں واپس نہیں آسکے۔سینئر کلاسوں کے طالبعلموں کو مہارت اور تحقیق میں نالج گیپ کا سامنا کرنا پڑا۔بہت بڑی تعداد میں کم آمدنی والے اسکول بند ہو گئے اور لاکھوں اساتذہ بے روزگار ہوئے۔تعلیم سے جڑے کاروبار شدید متاثر ہوا ہے ۔والدین کی معاشی اور نفسیاتی الجھنیں بڑھ گئیں۔ازالے سے قبل ہمیں نقصانات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانے کے لیے کمیٹی یا ٹاسک فورس تشکیل دی جائے۔جو دئیے گئے وقت میں جائزہ رپورٹ سفارشات ، عملدرآمد کا میکنزم اور اسکی بھی نگرانی کی ذمے داری پوری کرے۔ اسکول واپس نہ آسکنے والے بچوںکی ہر حال میں واپس لانے کی کوشش کرنی چاہیے،اساتذہ اور نجی تعلیمی اداروں کو ریلیف پیکج میں شامل کرنا چاہیے،اساتذہ اور والدین کی تربیت اور ہوم اسکول پارٹنرشپ پر سائنسی انداز میں کام کیا جائے،سرکاری تعلیمی اداروں کی حالتِ زار کو بہتر بنایا جائے،تعلیمی بجٹ میں اضافہ اور اس کے استعمال میں شفافیت لائی جائے،تعلیمی پالیسی کا تسلسل سے قائم رہنا ضروری ہے۔طویل المدتی پالیسی اختیار کی جائے۔اسکولوں کو تربیت اور صحیح معنوں میں سیکھنے کا مرکز، اور جامعات کو ریسرچ سینٹر بنانے کی سمت پیش قدمی کی ضرورت ہے۔سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرار ایسوسی ایشن کراچی کے صدر منور عبا س کا کہنا تھا کورونا کے باعث تعلیمی نقصان کا ازالہ ممکن نہیں۔تعلیمی اداروں کی جانب سے جتنی بھی کوششیں کی گئی وہ فزیکل تعلیم کا 25فیصد بھی نہیں ہو سکتا۔طلبہ وطالبات کو بغیر امتحانات کے پاس کرنا بہت بڑا نقصان ہے ۔