بے اصولی اصول ہے اپنا

455

میں: کل ایک محفل میں کسی صاحب کی اصول پسندی کا تذکرہ چل نکلا، گفتگو اس نتیجے پر پہنچی کہ بھائی وہ تو بہت اصولی آدمی ہیں ان سے کوئی کام نکلوانا آسان نہیں۔ ذرا سی ٹیڑھی بات کرو تو لتھاڑ کے رکھ دیتے ہیں۔
وہ: ویسے تم نے کبھی غور کیا ہے کہ اصولی ہونا آخر ہوتا کیا ہے؟ کیسا ہوتا ہے یہ اصولی آدمی؟
میں: غلط کام کسی صورت نہ کرنا، رشوت نہ لینا، اپنے کسی دوست، عزیز رشتے دارکی بے جا حمایت نہ کرنا، اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ نہ اٹھانا۔ روز مرہ زندگی اور خاص طور پر دفتری معاملات کے حوالے سے یہی کچھ چیزیں ہیں جو بندے کے اصولی ہونے کی عکاسی کرتی ہیں۔
وہ: تو پھر یہ اصولی ہونا تو اچھی بات ہوئی نا؟
میں: بالکل، اور ویسے بھی اب دنیا میں اصولی لوگ رہ ہی کتنے گئے ہیں، جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھ رہا ہے اسی تیز رفتاری سے ایمان دار اور بااصول افراد دنیا سے کم ہوتے چلے جارہے ہیں۔
وہ: تو کیا وجہ ہے کہ ہماری بیٹھکوں اور محفلوں میں ایک بااصول آدمی نکّو بن جاتا ہے، لوگ اس سے قریب ہونے کے بجائے کتراتے کیوں ہیں۔ اور ایسے شخص سے راہ ورسم بڑھاتے ہیں جو خود کسی بڑے عہدے پر متمکن ہو یا جس کے سماج میں بااثر افراد سے تعلقات ہوں، جو نہ صرف اپنے بلکہ اپنے دوست یاروں، عزیز رشتہ داروںکے اٹکے ہوئے کام بھی بآسانی نکلوا سکتا ہو۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس شخص کی تمام خامیاں اور برائیاں اس کی خوبیاں اور اچھائیاں بن جاتی ہیں۔ شاید ایسے ہی افرادکے لیے احمد ندیم قاسمی نے یہ شعر کہا تھا۔
کوئی کہتا نہیں بروں کو برا
کتنا اچھا رہا برا ہونا
میں: لگتا ہے ہر شخص نے بے اصولی کو اپنا اصول بنا رکھا ہے۔ اور اسی کے تحت اپنے روز وشب گزار رہا ہے۔
وہ: میرے خیال سے اصولی ہونے کے لیے انسان کا کسی نظریے، کسی عقیدے یا پھر کسی رجحان سے وابستہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ پھر اس عقیدے اور نظریے سے وضع ہونے والے اصول وضوابط کسی بھی فرد کی انفرادی زندگی اور معاشرے کی نشوونما کی بنیاد قرار پاتے ہیں۔ پر المیہ یہ ہے کہ آج کا انسان کسی نظریے کسی عقیدے سے جڑ کر رہنا ہی نہیں چاہتا، چوںکہ عقیدہ اور ایمان کچھ کاموں کا پابند کرتا ہے تو کچھ سے باز رہنے کا حکم دیتا ہے۔ اور آج ہمیں ہر جکڑ بندی ناگوار گزرتی ہے خواہ وہ مذہب کی ہو یا معاشرے کی۔
میں: اس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ کسی بھی شخص کا اصولی ہونا اصل میں اس کے عقیدے اور ایمان کی مضبوطی ہے، لیکن آج کل دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں، بلکہ شاید ہر دور میں رہے ہیں جو کسی عقیدے اور قاعدے قانون پر ایمان رکھے بغیر بھی ایک بااصول زندگی گزارتے رہے ہیں۔
وہ: ایسا کسی دور میں بھی نہیں ہوا، کیوں کہ کسی اعتقاد کے بغیر دنیا کا کوئی بھی انسان ایک باعمل اور اصولی زندگی گزار ہی نہیں سکتا۔ جیسا کہ ہم نے گزشتہ نشست میں یہ بات کی تھی کہ جس طرح انسان کو ئی مادی شہ خود سے نہیں بناسکتا بالکل اسی طرح کوئی نظریہ، کوئی قانون یا کوئی دستاویز بھی خود سے سوچ کر تخلیق نہیں کرسکتا۔ لہٰذا کسی نظریے اور عقیدے کا منکر بھی کسی نہ کسی اصول وضابطے کا پابند ہوتا ہے لیکن اس کی انا دوسروں کے سامنے اس کا اقرار کرنے سے روکتی ہے۔ جو اصل میں اللہ کی ذات اور خود بندے کا اپنے آپ سے انکار ہے۔
میں: اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہماری موجودہ سماجی زندگی زیادہ تشویش ناک اور سنگین صورت حال سے دوچار ہے کیوں کہ ہم تو ایک عقیدے اور ایمان کا اقرار کرنے کے باوجود اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں سے مسلسل اس کا انکار کررہے ہیں۔ جو اکا دُکا مذہبی پابندیاں رہ گئی ہیں، ان پر ہم کبھی آنکھیں بند کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں توکبھی دھڑلیّ سے جو دل میں آتا ہے وہ کرجاتے ہیں۔
وہ: یعنی عقیدے پر تو کوئی سودے بازی نہیں ہوگی، زبانی اقرار اور کچھ ظاہری عبادات کی حد تک تو معاملہ بالکل ٹھیک ہے مگر جہاں بات اس عقیدے سے وضع ہونے والے اصولوں کو عملی زندگی میں اختیارکرنے کی ہے توحیلے بہانے، مجبوریاں اور ذاتی مفادات ہماری منافقت کا روپ دھار لیتے ہیں اور ہم اس دنیا کے وقتی فائدے کے لیے نجانے کیا کیا کچھ دانستہ اور اپنے پورے ہوش وحواس میں کررہے ہیں۔ اور یہی اس وقت ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں جان بوجھ کر، پورے شعور کے ساتھ کررہے ہیں۔
بقول شاعر
جانتے بوجھتے، سمجھتے نہیں
میں سمجھتا ہوں یہ ہے آج کا دُکھ