میرے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

689

دنیا خوش نصیب لوگوں سے بھری پڑی ہے حضرت آدم سے لے کر قیامت تک آنے والے لوگوں میں کچھ انسان ناصرف مقبول
بلکہ خوش نصیب ترین بھی ہیں انہی خوش نصیب لوگوں میں اللہ رب العزت کے پیارے محبوب کے محبوب دوستوں کے بھی نام ہیں جنہیں ہم صحابہ کرام کہتے ہیں اور ان صحابیوں میں بھی خوش نصیب ترین صحابی “حضرت عبداللہ بن عثمان رضی اللہ تعالی عنہ “ہیں جن کی کنیت ابوبکر ہے آپ کے القاب صدیق اور عتیق ہیں _آپ کے والدین نے بھی اسلام قبول کیا اور آپ نے اپنی چار نسلوں کو اسلام قبول کرتے ہوئے دیکھا اللہ رب العزت نے آپ کا ذکر سورۃ زمر اور فتح میں اور توبہ میں کیا۔ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے آپ ہی ہیں قرآن کریم میں آپ کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے
“لا تحزن ان اللہ معنا ”
مالی امداد ہو یا رسول اللہ کی حفاظت یا یا اپنے گھر والوں کے ذریعے رسول اللہ کی خدمت کا معاملہ ہو آپ ہمیشہ سب سے آگے رہے ۔
وہ خوش نصیب وہ یارِ غار
وہ اعلی بخت وہ خسر یار
وہ ہم نوا وہ محافظ سرکار
وہ صدیق وعتیق وہی دلدار
وہ شجاعت آپ کی اور اعلی کردار
وہ خلافت و حلاوت وہ ہمت و استقلال
وہ جنبش لب اور دھن لعاب
وہ آپ کی مجلس میں بیٹھے یار
نہ مالی محبت نہ دنیا کے وار
ابوبکر کو چاہیے بس اللہ رسول کا ساتھ۔
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ احد کے پہاڑ پر کھڑے تھے تو ان کا پہاڑ لرزنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رک جا تیرے اوپر نبی و صدیق اور دو شہید کھڑے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں فرمایا کہ “صدیق سے محبت مومن کرے گا اور نفرت منافق “آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب کچھ لوگوں نے نبوت کا دعوی کیا تو اس وقت بھی آپ ختم نبوت کے سپاہی بن کر کھڑے رہے ۔
ایک دفعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا آسمان کے ستاروں کے برابر کس کی نیکیاں ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا نام لیا آپ کچھ افسردہ ہوئی تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ کے والد کی تو صرف حجرت کے تین راتوں کی اتنی نیکیاں ہیں۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والوں کی حالت ایسی تھی کہ جو بیان سے باہر ہے حتی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ بھی خود پر قابو رکھنے سے قاصر نظر آئے اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے جس صبر اور ہمت کا مظاہرہ کیا وہ بلاشبہ نہایت قابل قدر ہے اور خلافت کا معاملہ چھڑا اور صحابہ کی کمیٹی بیٹھی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جس کو امامت بخشش کے گئے وہی اب امام ہوں گے یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہا اور آپ نے اپنی خلافت کے دوران جس بے باکی اور فطری شجاعت سے مسلمانوں کی بھلائی کے لئے کام کیا وہ قابل قدر ہے آپ کے خلافت کے دوران ہی پہلی دفعہ قرآن پاک کو جمع کیا گیا حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ اور دو گواہان کی موجودگی میں آپ نے2 سال اور چند ماہ خلافت کی اور پھر رحلت فرما گئے۔
فلک نے انبیاء کے بعد کب تجھ سا بشر دیکھا
زمانے نے سدا تجھ کو نبی کا ہم سفر دیکھا
سفر ہو یا حضر ہو، غار ہو یا گنبذِ خضرا
جہاں آقا نظر آئے تجھے سب نے ادھر دیکھا
دل و جاں سے فدا کیونکر نہ ہو تجھ پر یہ عباسیؔ
کہ جب تیرے مریدوں میں علیؓ دیکھا، عمرؓ دیکھ