فضائل و مناقب کا روشن باب سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ

513

یہ ہمارا عقیدہ اور نظریہ ہے کہ تمام صحابہ کرامؓ ہی ہمارے سروں کے تاج ہیں، لیکن جو اعزاز اور سر بلندی سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے نصیب میں آئی، وہ کسی اور کے حصّے میں نہ آسکی۔ پیدائش کے وقت والدین نے آپ کا نام عبدالکعبہ ’’کعبہ کا بندہ‘‘ رکھا، مگر اسلام قبول کرلینے کے بعد نبی کریم ؐ نے آپ کا نام بدل کر عبداللہ ’’اللہ کا بندہ‘‘ کردیا، ابوبکر آپؓ کی کنیت، صدیق اور عتیق لقب تھے۔ آپؓ زیادہ تر اپنی کنیت اور لقب صدیق سے مشہور ہوئے۔ ایمان کی دولت سے سر فراز ہونے کے بعد اپنا مال ودولت، اسلام کی اشاعت اور مظلوم مسلمان غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کرتے رہے۔ اسلام کے پہلے موذّن سیدنا بلالؓ کو بھی سیدنا صدیق اکبرؓ ہی نے اُن کے ظالم آقا اُمیہ سے خرید کر آزاد کیا تھا۔ ہجرتِ مدینہ کے سفر میں صدیق اکبر ؓ ہی نبی کریم ؐ کے رفیق سفر تھے، دورانِ سفر کئی بار ایسے جذبہ محبت والفت کے مظاہر سامنے آئے کہ جن کی مثال مشکل ہے، پھر غارِثور میں نبی کریم ؐ کی خاطر داری کا اعزاز بھی نصیب ہوا، غارکے اندر تمام سوراخ بند کرنے کے بعد جب ایک سوراخ بند نہ ہوسکا اور نبی کریمؐ آپ ؓ کے زانو پر سرِاقدس رکھ کر سو گئے تو کیڑے مکوڑے اور سانپ بچھو سے حفاظت کے لیے اُس ایک سوراخ پر صدیق اکبرؓ نے اپنی ایڑی رکھ دی، اُس میں ایک سانپ تھا جس نے انہیں ڈس لیا، شدتِ تکلیف کے باوجود پہلو نہ بدلا کہ آپؐ بے آرام نہ ہو جائیں، مگر آنسوو ں کے چند قطرے بے اختیار نکل کر نبی کریم ؐ کے چہرہ مبارک پرجاگرے، جس سے آپؐ جاگ گئے، وجہ پوچھی اور پھر آپؐ نے اپنا لعابِ دہن آپ کے پیر کے زخم پر لگایا جس سے اسی وقت تکلیف کافور ہوگئی۔
سیدنا ابوبکرؓ کی صحابیت اور شرف کی گواہی قرآن کریم نے دی ہے کہ جب وہ دونوں غار میں تھے۔ آیت صاف بتاتی ہے کہ سیدنا ابوبکرؓصدیق اپنے لیے خوف زدہ نہ تھا، بلکہ نبیؐ کے حوالے سے بے چین تھے کہ کہیں دشمن آپؐ کو نقصان نہ پہنچا دیں۔
مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی تعمیر کے لیے دو یتیم بچوں سے خریدی گئی، زمین کی قیمت بھی سیدنا ابوبکرؓ صدیق نے ادا کی۔ اس طرح قیامت تک مسجد نبوی ابوبکر صدیق ؓ کے لیے صدقہ جاریہ کا باعث بنی رہے گی۔ سماجی اور رفاہی خدمات کے ساتھ ساتھ دیگر دینی و مذہبی سرگرمیوں میں بھی سیدنا ابوبکرؓ پیش پیش تھے، غزوہ بدر ہو یا اُحد، خیبر ہو یا معرکے، آپ نبی کریمؐ کے ساتھ ساتھ تھے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر سیدنا ابوبکر ؓ اپنا سارا مال ومتاع لے کر نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوگئے، جب نبی کریم ؐ نے پوچھا کہ گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے تو فرمایا، اُن کے لیے اللہ اور اُس کے رسولؐ کا نام چھوڑآیا ہوں، سیدنا عمرؓ فرماتے ہیں، سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کا یہ ایثار دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ آپ سے آ گے کوئی نہیں بڑھ سکتا۔ نبی کریم ؐ کے وصال کے بعد جب صدیق اکبرؓ کی خلافت پر مسلمان جمع ہوئے اور بیعت عام ہوئی تو اس کے بعدصدیق اکبرؓ نے تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا کہ لوگو، اللہ کی قسم نہ میں کبھی امارت کا خواہاں تھا، نہ اس کی طرف مجھے رغبت تھی اور نہ کبھی میں نے خفیہ یا ظاہراً اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے دعا کی، لیکن مجھے خوف ہوا کہ کوئی فتنہ نہ برپا ہوجائے، اس لیے اس بوجھ کو اٹھا نے کے لیے تیار ہوگیا، امارت میں مجھے کوئی راحت نہیں، بلکہ یہ ایسا بوجھ مجھ پر ڈالا گیا ہے کہ جس کی برداشت کی طاقت میں اپنے اندر نہیں پاتا اور اللہ کی مدد کے بغیر یہ فرض پورا نہیں ہوسکتا۔ کاش میری بجائے کوئی ایسا شخص خلیفہ مقرر ہوتا جو اس بوجھ کو اٹھانے کی

مجھ سے زیادہ طاقت رکھتا، مجھے تم نے امیر بنایا، حالانکہ میں تم میں سے بہتر نہیں ہوں، اگر اچھا کام کروں تو میری مدد کرنا اور غلطی کروں تو اصلاح کرنا۔ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت کروں، تم میری اطاعت کرنا اور اگر میں ان کیخلاف کروں تو میرا ساتھ چھوڑدینا‘‘۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنے ڈھائی سالہ عہدِ خلافت میں لشکر اُسامہ ؓ کی روانگی، فتنہ ارتداد، منکرین زکوٰۃ اور جھوٹے نبیوں کی سرکوبی کے بعد عرب میں امن واستحکام کے ساتھ ساتھ ایران پر فوج کشی کا حکم دیا، اسی طرح شام اور روم کی طرف بھی پیش قدمی کی اور فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ اپنی وفات سے قبل وصیت فرمائی کہ بیت المال سے ان ڈھائی برس میں جتنا روپیہ بطور وظیفہ مجھے ملتا رہا، وہ سب میری زمین بیچ کر واپس بیت المال میں جمع کرایا جائے، مجھے پرانے کپڑوں ہی میں سپرد خاک کردیا جائے کہ نئے کپڑے کے زندہ زیادہ ضرورت مند ہوتے ہیں۔ ۶۳ برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے۔ سیدنا عمرؓ نے جنازہ پڑھایا اور حجرہ عائشہ ؓ میں نبی اکرمؐ کے پہلو میں آرام فرما ہیں۔
سیرتِ صدیقی پر ایک نظر
٭ …نام عبداللہ، کنیت ابو بکر جب کہ صدیقِ اکبر، عتیق، یارِ غار کے القاب سے آپ نے اسلامی تاریخ میں شہرت پائی۔
٭ …والد کا نام ابو قحافہ عثمان اور والدہ کا اسم ِ مبارک ام الخیر سلمیٰ بنت ِ صخر تھا۔
٭…آپ کی ولادت مکہ مکرمہ میں رسول اکرم ؐکی ولادتِ باسعادت سے دو سال دو ماہ قبل ہوئی۔
٭زمانہ جاہلیت میںکبھی شراب نہ پی اور بچپن ہی سے بت پرستی سے دور رہے۔
٭ زمانہ جاہلیت میں دیت (خوں بہا) اور جرمانے کے مقدمات آپ کے سپرد تھے۔
٭ …پیکرِ صدق و وفا ابو بکر صدیقؓ کا حلیہ مبارک کچھ یوں تھا، رنگ سفید، اکہرا بدن، پیشانی کشادہ اور بلند جو، اکثر عرق آلود رہتی۔ کمالِ حیا سے نگاہیں اکثر نیچی رہتیں، جب کہ حنا اور کسم کا خضاب کیا کرتے تھے۔
٭ …چار نکاح فرمائے۔ پہلا نکاح قتیلہ بنت عبدالعزیٰ سے کیا، ان سے عبداللہؓ اور اسماءؓ کی ولادت ہوئی۔ دوسرا نکاح امِ رومان سے کیا، ان کے بطن سے عبدالرحمن ؓاور سیدہ عائشہ ؓ پیدا ہوئے۔ تیسرا نکاح اسماء بنت ِ عمیس سے ہوا، ان سے محمد بن ابو بکر ؓ متولد ہوئے، جب کہ چوتھا نکاح حبیبہ بنتِ خارجہ انصاریہ سے فرمایا، ان کے بطن سے ابو بکر صدیق ؓ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی امِ کلثوم ؓکی ولادت ہوئی۔ (حاکم)
٭ …دورِ خلافت کے کارہائے نمایاں میں منکرینِ زکوٰۃ کے خلاف جہاد، فتنہ ارتداد کا سدِ باب، عراق اور شام کی تسخیر اور قرآنِ کریم کو ایک مصحف میں جمع کرنا شامل ہے۔
٭ …امام نوویؒ نے فرمایا کہ صدیقِ اکبرؓ سے رسول اکرمؐ کی ایک سو بیالیس احادیثِ مبارکہ مروی ہیں۔ (شرح تہذیب)