آزادیٔ کشمیر وقت کا تقاضا!

522

آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
معرکۂ حق و باطل ازل سے جاری ہے اور تاابد جاری رہے گا۔ ۵؍فروری ہر سال کی طرح اس سال بھی پورے اہتمام کے ساتھ پاکستان اور دنیا بھر میں منایا جا رہا ہے۔ وادیٔ کشمیر خطہ جنت نظیر ہے مگر پون صدی سے بھارت کے غاصبانہ قبضے میں ہے۔ بربریت کے خلاف کشمیریوں کی جدوجہد اور بھارت کی سفاکی نے اس وادیٔ باغ و بہار کو خزاں رسیدہ ہی نہیں بلکہ لہولہان کر دیا ہے۔ اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری نوجوان، بزرگان اور دخترانِ اسلام جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ یہ سیاہ رات کافی طویل ہوگئی ہے، مگر کوئی رات ایسی نہیں، جس کی سحر نہ ہو ۔ وہ سحر کب طلوع ہوگی اس کا علم خالقِ کائنات ہی کو ہے، تاہم ہر بندۂ مومن کو یقین رکھنا چاہیے کہ خونِ شہداء کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔
کشمیری قیادت شیخ عبداللہ سے لے کر ان کے بیٹے فاروق عبداللہ تک اور بخشی غلام محمد سے لے کر مفتی سعید تک بار بار اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتی رہی ہے۔ اس سارے المناک تاریخی پس منظر میں کشمیر کی حریت پسند تنظیموں اور پرعزم شخصیات نے خونِ جگر دے کر آزادی کا علم ہمیشہ بلند رکھا ہے۔ کشمیر پر فوج اور مسلح دستوں کے ذریعے یہ ظالمانہ قبضہ دیرپا یا دائمی نہیں ہوسکتا۔ انڈیا کی دس لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں مایوسی کا شکار ہوچکی ہے۔ اندھادھند گولیاں چلانے والے نہتے کشمیری عوام کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ کتنے ہی فوجیوں اور پولیس کارندوں نے خودکشیاں کی ہیں۔ ایک بڑی تعداد ذہنی مریض بن چکی ہے اور یہ سلسلہ روز افزوں ہے۔ اس کے مقابلے میں کشمیری بغیر آتشیں اسلحہ کے لاکھوں فوجیوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے شہادت کی وادی میں اتر جاتے ہیں، مگر کبھی مایوس ہو کر خودکشی کا راستہ نہیں اپناتے۔
کیا کشمیر پر بزور قوت قبضہ جاری رہ سکتا ہے؟ اس سوال پر خود بھارت کے اندر سے مختلف اوقات میں بھارتی دانشور، سیاست دان، صحافی اور سرکاری افسران بہت چشم کشا تبصرے کرچکے ہیں۔ بھارت کے سابق سپہ سالاروں میں سے کئی ایک نے اس ساری بھارتی منصوبہ بندی کو دیوانے کا خواب قرار دیا۔ کچھ عرصہ قبل ایک سابق بھارتی پولیس اہلکار کا تبصرہ ذرائع ابلاغ کی زینت بنا ہے۔ اخباری خبروں کے مطابق نئی دہلی سے (نیٹ نیوز) سے یہ خبر نشر ہوئی ہے ’’مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی صورت حال پر بھارت کے اندر سے ہی آوازیں اٹھنے لگی ہیں، سابق بھارتی پولیس اہلکار نے حکمرانوں کو آئینہ دکھا دیا اور کہا ہے کہ کوئی عسکریت پسندی یا فوجی مداخلت کشمیر کے تنازعہ کا حل نہیں ہوسکتی، ریاست گجرات کے سابق پولیس اہلکار سنجیوبھٹ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ کشمیری انصاف اور آزادی کی خواہش رکھتے ہیں، اس تاریخی سیاسی مسئلے کا حل صرف سیاسی ہے۔ ‘‘
یوں تو ہر شہادت اور خونریزی کے موقع پر پورے مقبوضہ کشمیر کے گلی کوچے، منبر و محراب اور قلم و قرطاس سے تعلق رکھنے والے ادیب و صحافی اور ان کے جرائد و اخبارات سراپا احتجاج بن کر بے حس عالمی قوتوں کے مردہ ضمیر کو جگانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ لیکن شجاعت بخاری کی شہادت نے صحافت کی دنیا میں ایک نیا اندازِ احتجاج متعارف کروایا تھا۔ اخبارات تو معمول کے مطابق چھپے، شجاعت بخاری کا تذکرہ خبروں کے علاوہ کالموں میں بھی کیا گیا، مگر احتجاجاً کسی اخبار نے اداریہ نہ لکھا، احتجاج کا یہ انداز بلاشبہ بہت مؤثر ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے معروضی حالات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتاہے کہ وہاں کے شجر و حجر اور درو دیوار بلکہ وہاں کے کتے اور بلیاں بھی بھارتی بھیڑیوں سے شدید نفرت رکھتے ہیں۔ غیرت مند کشمیر یوں کا یہ تاریخی اور ناقابل فراموش کردار کس سے پوشیدہ ہے کہ وہ ہر روز شہداء کے جنازے اٹھاتے ہیں مگر سرجھکانے سے انکاری ہیں ۔ مودی سے دوستیاں کرنے، اسے سرکاری اعزازات سے نوازنے والے اور بھارت کے ساتھ ثقافتی بھائی چارے اور ثقافتی طائفوں کے تبادلے کے علمبردار یاد رکھیں کہ دوستی اور خیر سگالی اچھی چیزہے مگر کوئی انسان خونخوار درندوں سے تو دوستی نہیںکرسکتا۔ کشمیری آبادی خراج عقیدت کی مستحق ہے کہ اپنے شہداء کو پاکستانی پرچم میں دفناتے ہیں اور ان کی قبروں پر پاکستان کا سبز ہلالی علم دیکھا جاسکتا ہے ۔ وہ انڈیا کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے اور یوم پاکستان کو پاکستانی قوم سے بھی زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں۔
ہر کشمیری کی زبان پر ہمیشہ یہی نعرہ ہوتاہے ’’کشمیر بنے گا پاکستان ۔ ‘‘ پاکستانی ٹیم کسی بھی میچ میں جیت جائے تو کشمیر میں جشن منایاجاتاہے۔ خاص طور پر اگرپاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ ہواور اس میں پاکستان فتح پائے تو کشمیریوں کی طر ف سے وہ دن عید کی طرح منایاجاتاہے۔ کشمیر ان شاء اللہ پاکستان کاحصہ بنے گا اور تکمیل پاکستان کا خواب پورا ہوگا۔ قائد اعظم ؒ نے کشمیر کو بلاوجہ پاکستان کی شہ رگ قرار نہیں دیاتھا۔ ان کے بیان میں وزن اور منطق ہے۔ کشمیر کو بنیا اب زیادہ عرصے تک اپنی غلامی میں نہیں رکھ سکتا۔ علامہ اقبال نے کشمیر کا درد محسوس کرتے ہوئے انتہائی سوز وگداز سے کہا تھا۔ ؎
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
آہ یہ قوم نجیب و چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر!