فنی تعلیمی ادارے حکومتی عدم توجہ کے باعث ملکی ضرورت کے مطابق ہنرمند افراد تیار نہ کرسکے

843

کراچی(رپورٹ:حماد حسین)فنی تعلیم کسی بھی معاشرے کے تعلیمی اور معاشی استحکام کی ضامن ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں فنی تعلیم پر توجہ عمومی تعلیم سے کہیں کم ہے،پاکستان کا مستقبل فنی تعلیم سے جڑا ہے اور نوجوان نسل کو فنی علوم سے آراستہ کرکے نہ صرف بے روزگاری کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر بھی گامزن کیا جاسکتا ہے لیکن ہم اس کے فروغ کے لیے قابل ذکر پیش رفت نہیںکرپائے،ہماری آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس میںبڑی تعداد نوجوانوں کی ہے جو کسی بھی ملک کے لیے خو ش آئند ہے لیکن تعلیم اور ہنر مندی سے محروم یہ نوجوان ملکی معیشت کا سہارا بننے کے بجائے بڑھتی ہوئی بے روز گاری کی وجہ سے بوجھ ثابت ہورہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار ٹریڈ ٹیسٹنگ بورڈ کے چیئرمین مظفر بھٹو ،سندھ ٹیکنیکل ایجوکشینل ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی کے ڈائریکٹر اکیڈمک لیاقت جامرو اورگورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی کراچی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر تصدق شہاب نے’’جسارت‘‘سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔مظفر بھٹو کا کہنا تھا کہ غربت کے خاتمے اور ملک کی مضبوط معیشت کے سہارے معاشرتی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے نوجوانوں کو فنی تربیت فراہم کیے بغیر ممکن نہیں، فنی تعلیم کا فروغ معاشرے سے بیروزگاری ختم کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے ، فنی تعلیم کسی بھی معاشرے کے تعلیمی اور معاشی استحکام کی ضامن ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں فنی تعلیم پر توجہ عمومی تعلیم سے کہیں کم ہے،ہم شاید نہیں جانتے کہ جن ممالک نے فنی تعلیم کو اپنی عمومی تعلیم کا حصہ بناکر اس پر توجہ دی وہاں معاشی ترقی کی رفتار زیادہ ہے،ہمارے ہاں بھی ارباب اقتدار و اختیار اس امر کا اعتراف تو کرتے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل فنی تعلیم سے جڑا ہے اور نوجوان نسل کو فنی علوم سے آراستہ کرکے نہ صرف بے روزگاری کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر بھی گامزن کیا جاسکتا ہے لیکن ہم اس کے فروغ کے لیے قابل ذکر پیش رفت نہیں کرپائے،تعلیم انسان کو شعور اور معاشرتی ادب سکھا کر معاشرے میں رہنے کے قابل بناتی ہے جسے حاصل کرنے سے انسان ایک قابل قدر شہری بن جاتا ہے جبکہ فنی تربیت انسان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے اسے باعزت روزگار کمانے کے قابل بناتی ہے تاکہ وہ معاشی طور پر خوشحال زندگی بسر کرسکے، ہماری آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس میںبڑی تعداد نوجوانوں کی ہے جو کسی بھی ملک کے لیے خو ش آئند امر ہے لیکن تعلیم اور ہنر مندی سے محروم یہ نوجوان ملکی معیشت کا سہارا بننے کے بجائے بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے بوجھ ثابت ہورہے ہیں،یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طلبہ بھی ڈگری ہونے کے باوجود عملی تربیت اور ہنر نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،اگر ان کے نصاب میں کوئی ایک بھی فنی کورس شامل ہوتا تو انہیں مایوسی کا سامنا ہرگز نہ کرنا پڑتا،فنی اورپیشہ ورانہ تعلیم و تربیت (TVET) کے نظام معیار اور اس کی بہتری میں دلچسپی حالیہ سالوں میں پاکستان کے اندر صوبائی سطح پر بتدریج بڑھ گئی ہے، اس دلچسپی کی بنیادی وجہ معاشی مسابقت ہے لہٰذا بہت سے صوبوں میںsystem TVET اور تربیتی اداروں میں ترقی اور جدید کاری کا حتمی مقصد جاری و ساری ہے،جس کا مقصد تربیتی اداروں کی کارکردگی کے معیار کو مستحکم کرنا اور تربیتی نتائج کو بہتر بنانا ہے تا کہ ملک کی ترقی آگے بڑھ سکے، فنی تعلیم روایتی تعلیم سے ایک قابل عمل متبادل ہے، سچ یہ ہے کہ فنی تعلیم دینا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے جدید انفرااسٹرکچر چاہیے جو آئندہ صنعت کی ضرورت کو پورا کرسکے۔ لیاقت جامرو کا کہنا تھا کہ فنی تعلیم کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا،اس جدید دور میں عام تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم حاصل کرنا بھی ضروری ہوگیا ہے، ابتدائی زمانوں میں تعلیم حاصل کرنے کا مقصد لوگوں کو سماجی طور پر ذی فہم بنانا ہوتا تھا تا کہ وہ معاشرے کا ایک اچھا فرد بن سکیں مگر گزرتے وقت کے ساتھ تعلیم کا یہ دائرہ مزید وسیع ہوتا گیا اور معاشی ترقی میں کارآمد ہوا مگر آج کل تعلیم ملازمت حاصل کرنے کے لیے بہت ضروری ہوگئی ہے جس کی وجہ سے فنی تعلیم بھی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوچکی ہے،پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور ترقی پذیر ممالک کے لیے ضروری ہے کہ فنی تعلیم کو اہمیت دیں جس کے بغیر وہ صنعت جو کہ ہماری معاشی ترقی کا اہم ذریعہ ہے اسے بہتر نہیں کرسکتے، اس سلسلے میں انجینئرنگ کالجز اورفنی انسٹیٹیوٹ کی ایک بڑی تعداد قائم کی گئی ہے جو اس طرح کی تعلیم دینے میں حصہ لے سکیں، ایک اہم چیز جو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ایسی صنعت کو فروغ دیں جو ان اداروں سے پڑھنے والے طلبہ کو نوکری دے سکیں،عام طور پر کہا جاتا ہے کہ تکنیکی آدمی کبھی بے روزگار نہیں رہتا کیونکہ وہ خود ہی کوئی صنعت یا ورک شاپ بنا لیتا ہے اگر کوئی نوکری نہ مل سکے توفنی تعلیم کا ایک اور مقصد آپ کو مہارت دینا ہے،اس طرح کی تعلیم آپ کو مختلف مشینوں کو صیح طریقے سے استعمال کرنے کی مہارت دیتی ہے، ایک اور اہم نکتہ جو یہاں بتانا ضروری ہے کہ ہم جنرل تعلیم کو بھی فنی تعلیم کے سامنے نظر انداز نہیں کرسکتے کیونکہ جنرل تعلیم نہ صرف ہمارے جذبات کی پرورش کرتی ہے بلکہ ہماری ذہنی سوچ کو بھی وسیع کرتی ہے،اس لیے فنی تعلیم مکمل تعلیم نہیں ہوسکتی ۔ تصدق شہاب کا کہنا تھا کہ فنی تعلیمی اداروں نے کچھ حد ملکی ترقی میں کردار ادا کیا ہے اور ہم ملکی ترقی کو بنیادی طور پر2 ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں،ایک جمہوری طرز حکومت اور دوسرامارشل لاء کا دور، بلاشبہ پاکستان میں وقتآ فوقتا جمہوری ادوار میں بین الاقوامی سطح کی ٹیکنیکل ایجوکیشن اور ووکیشنل ٹریننگ کے میدان میں بہترین پالیسیز کا اجراء ہوا، جن کی وجہ سے بڑی بڑی عمارتوں کو تعمیر کیا گیا،پر تعیش لگژری گاڑیوں کی خریداری ہوئی ، فرنیچر اور دیگر تمام مشینیں اور آلات مہیا کیے گئے اور سب سے بڑھ کر لوگوں کو روزگار مہیا کیے گئے لیکن جب ان فنی اداروں کو مستقل بنیادوں پر چلانے کا مرحلہ آیا تو سیاسی کاریگری اور انتظامی نااہلی کی وجہ سے فنی اداروں میں صرف میٹنگ، ورکشاپس، سیمینار، اندرون اور بیرون ملک دوروں، بیرونی فنڈنگ اور پروجیکٹس پر توجہ مرکوزرکھی گئی،اس کے برعکس مارشل لاء نظریہ ضرورت کے تحت ان ادوار میں ملک میں فنی تعلیم کو مضبوط و مربوط کرنے کی کوششیں بہتر ثابت ہوئیں، اداروں میں طالبعلموں کی چہل پہل، تعلیم و تربیت کی وجہ سے باشعور نوجوان، انڈسٹریل اور فنی تعلیم و تربیت سے وابستہ ملکی و غیر ملکی کاروباری حلقہ مطمئن رہے،اس حقیقت سے کو ئی ذی شعور انسان انکار نہیں کرسکتا کہ صوبہ سندھ اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی فنی تعلیم و تربیت سے براہ راست وابستہ ہے لہٰذااس سیکٹر کے تعلیمی و تربیتی اداروں کا کنٹرول کلریکل اور نان ٹیکنیکل اسٹاف سے لیکر ٹیکنالوجٹس کے حوالے کرنا ہوگا ۔