پاکستانی عوام کی معاشی محرومی کیوں دور نہیں ہوتی؟۔

832

ستمبر 2020 میں جو پالیسی ایجنڈا متحدہ حزب اختلاف (پی ڈی ایم) نے جاری کیا ہے اس کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس کے کسی شق کا عوام کی روزمرہ زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم ایک دہریہ سرمایہ دارانہ محاذ ہے اور اگر یہ برسر اقتدارآیا تو رائج شدہ معاشی نظام میں کوئی مالیاتی یا ساختی تبدیلی نہ ہو گی۔
سرمایہ داری محض ایک معیشت نہیں۔ ایک مکمل (totalizing) نظام زندگی اور طرزِ حیات ہے۔ اس نظاماتی یا طرزی تناظر میں احساسِ محرومی اور بے گانگی غالب معاشرتی کیفیت ہے اور عوام بالخصوص ہمیشہ اور ہر جگہ احساسِ محرومی کا شکار رہتے ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ معاشرہ میں حرص و ہوس کا غلبہ ہوتا ہے۔ لوگ تسکین قلب صَرف یعنی consumption میں تلاش کرتے ہیں۔ ہر شخص مستقل دنیاوی مسابقت (compition)پر مجبور ہوتا چلا جاتا ہے۔ نفوس حرص اور ہوس کے شیاطین کی آماج گاہ بن جاتے ہیں اور ان شیطانی قوتوں کے تغلب کی کوئی حد نہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ سکون قلب تو صرف ذکراللہ ہی میں ہے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ہمارے لیے اجنبی ہو جاتی ہے۔
دو جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام
خواہشاتِ نفسانی کا سیلاب عوام کے لامتناہی ’’جائز‘‘ حقوق کی طلب میں امڈتا چلا آتا ہے اور ان مفروضہ ’’حقوق‘‘ کا حصول ہمیشہ ایک سراب ثابت ہوتا ہے۔ عوام ہمیشہ اپنے آپ کو محروم، مظلوم، بے کس اور مجبور سمجھتے رہتے ہیں۔
احساسِ محرومی کا دوسرا سبب سرمایہ داری کا یہ جھوٹا دعویٰ ہے کہ وہ مساویانہ آزادی فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ آزادی کا تاریخی مطلب ہے سرمایہ کی غلامی اور یہ غلامی پاکستان پر سامراج نے جبراً مسلط کی ہے اور یہ تسلط لازماً ایک غیر مساویانہ طرزِ عمل سے قائم رہتا ہے۔ صرف پاکستان میں نہیں دنیا کے ہر ملک میں جیسے جیسے سرمایہ دارانہ نظام ترقی کرتا ہے ویسے ویسے آمدن اور دولت کی تقسیم غیر مساویانہ ہوتی جاتی ہے (اس کی تفصیل مولانا مودودی رحمہ اللہ کے رسالہ ’’انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے)۔
سرمایہ دارانہ نظام خود اپنا تصورِ عدل بروئیکار نہیں لا سکتا۔ سرمایہ دارانہ مارکیٹی عمل کا لازمی نتیجہ اجارہ داریوں اور تقسیم دولت و آمدنی کی بڑھتی ہوئی عدم مساوات کا فروغ ہے۔ جیسے جیسے یہ عدم مساوات فروغ پاتی ہے ویسے ویسے عوام کے مفروضہ سرمایہ دارانہ حقوق بے معنی اور ناقابلِ حصول ہوتے چلے جاتے ہیں اور عدم مساوات کے فروغ کے نتیجہ میں عوام میں حسد اور غضب اور نفرت اور بے گانگی کے جذبات میں بھی ترقی ہوتی رہتی ہے۔
پھر مقننہ اور حکومت تو سرمایہ دارانہ ریاستی کارفرمائی جاری رکھنے کا ایک ذریعہ ہی ہے۔ ریاست کے دوسرے ادارے (کارپوریشن، بینک، میڈیا، عدلیہ، انتظامیہ) سرمایہ دارانہ اقتدار کے ستون ہیں۔ ان ریاستی اداروں پر حکومت اور مقننہ کا اختیار نہایت محدود اور پاکستان میں بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی ریاست عالمی، امریکی اور چینی سامراجی دائرہ اثر میں ہے اور ریاستی اشرافیہ (تحریک انصاف، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی) سرمایہ دارانہ عقلیت (جاہلیت خالصہ ) پر ایمان لے آتی ہے۔ ان حالات میں کوئی پاکستانی حکومت سرمایہ دارانہ جکڑبندیوں سے نجات کا تصور تک نہیں کر سکتی اور چاہے تحریک انصاف کی حکومت قائم رہے یا چاہے پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہو عوام کا احساس محرومی اور بے بسی بڑھتا ہی رہے گا۔
ہمیں سرمایہ دارانہ نظاماتی تغلب کے تناظر میں انہدام سرمایہ داری کی جدوجہد مرتب کرنا ہے۔ ہم زمینی حقائق سے صرف نظر کر کے کوئی تخیلاتی (idealist) رویہ اختیار نہیں کر سکتے۔ نہ ہم ابن الوقتوں (pragmatic)اور موقعہ پرستوں کی طرح سرمایہ دارانہ تحکم سے مصالحت کر سکتے ہیں۔ لہٰذا میں ایسی تزویراتی حکمت عملی وضع کرنے کی کوشش کروں گاجس میں ہم عوام اور ملک پر سے سرمایہ دارانہ جبر ختم کر سکیں۔
یہ گزارشات دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہیں۔ پہلے وہ اصول بیان کیے گئے ہیں جن پر یہ حکمت عملی مرتب کی گئی ہے۔ بعد میں وہ عملی تجاویز دی گئی ہیں جو ہمیں آیندہ انتخابات میں پیش کرنا چاہئیں۔
1۔ ہم عوام کے جائز سرمایہ دارانہ حقوق کے وکیل نہ بنیں۔ یہ چیز ہم پر سوشل ڈیموکریٹ اور قوم پرست شناخت مسلط کرتی ہے۔
2۔ ہم عوام کی خواہشات کے پیرو اور مطیع نہ بنیں بلکہ ان خواہشات و میلانات کی تبدیلی کی کوشش کریں۔
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے
ہم عوام کے پیچھے نہ چلیں انہیں اپنے پیچھے چلانے کی کوشش کریں۔
3۔ سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کی کوشش نہ کریں۔ سرمایہ دارانہ اداروں (واپڈا، کے الیکٹرک ،پاکستان اسٹیل ملز ، پی آئی اے وغیرہ) کی ساختی ترتیب نو اور کارفرمائی کی اصلاح سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہونا چاہیے۔
4۔ ہم سرمایہ دارانہ مالی (fiscal)اور مالیاتی (monetory)نظام کو کمزور کرنے کی کوشش کریں ان کی ساختی ترتیب نو اور اصلاح کرنے کی کوشش نہ کریں۔
5۔ ہم سرمایہ دارانہ سامراجی عالمی نظام سے ملکی معیشت کی علیحدگی کی وکالت کریں۔
6۔ ہم اس رویہ کی وکالت کریں کہ پالیسی کی توجہ ملک کی اندرونی مانگ اور شخصی کارکردگی (labour productivity)ہی پر مرکوز ہو ، ناکہ بیرونی مانگ (درآمدات و برآمدات) اور رسد (بیرونی سرمایہ کاری) پر-
7۔ ملک کے مخلصین دین کو (جن کی تعداد 2 کروڑ کے لگ بھگ ہے) بتدریج منظم کر کے ان کی قیادت میں عوام کو معاشی طور پر متحد اور منظم کرنا۔ یہ ایک طویل المدت ہدف ہے۔
ان پالیسیوں کی تنفیذ کے دو مقاصد ہیں
1۔ عوام میں یہ احساس پیدا کرنا کہ معاشی جدوجہد کا مقصد حصولِ معاد (آخرت کی کامیابی )ہے اور جب تک معاشی جدوجہد کو حصولِ معاد کی جدوجہد کے تابع نہ کیا جائے گا اس وقت تک سکونِ قلب کا حصول ناممکن ہے۔
یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ وپیوند
بتان وہم و گماں لاالہ الا اللہ
اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشی جدوجہد روحانی ترقی کا ایک حصہ ہو۔ یہ عوامی روحانی ترقی کا کام اسلامی جماعتوں کا اتحاد ہی انجام دے سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست اس کی راہ میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کر سکتی۔
2۔ مخلصین دین اور مستضعفین کو نظاماتی طور پر بااقتدار بنانا۔ غربت میں کمی اور معاشی پیداواری بڑھوتری اس حد تک قابل قبول تصور کیے جائیں گے جس حد تک وہ عوامی روحانی ترقی اور مخلصین دین کے اقتدار میں فروغ کا ذریعہ بنیں۔
3۔ قومی فوج کی تشکیل نو۔ اس میں تمام مردوں کی شرکت سے ایک عوامی فوج (peoplearmy )کا قیام۔
4۔ تمام معاشی شعبہ جات کا فوجی پیداواری اور صَرف نظام سے ارتباط (integration)
5۔ ہتھیاروں کی پیداوار میں ملکی خود کفالت کا حصول
(جاری ہے)