نوآبادیات کی کہانی

372

فرانسیسی صدر ماکرون نے پچھلے ہفتے اپنے بیان میں الجزائر میں فرانس کی حکومت کے نو آبادیاتی دور میں قبضے اور اس دوران ہونے والے مظالم پر معافی مانگنے سے انکار کردیا ہے۔ الجزائر کی 8 سالہ جنگ آزادی کے دوران لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ انہوں نے اس سلسلے میں اپنے بیان میں کہا کہ الجزائر پر فرانسیسی حکومت کو ختم کرنے والی 8 سالہ خونریز جنگ کے حوالے سے نہ ندامت کا اظہار کیا جائے گا اور نہ معافی مانگی جائے گی۔ انہوں نے یہ بیان ایسے وقت دیا جب فرانس کے نوآبادیاتی ماضی کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ شائع ہونے کا اعلان سامنے آیا ہے۔ فرانس کے اپنے مورخین کے مطابق اس جنگ آزادی میں ہلاکتوں کی تعداد ڈھائی لاکھ کے قریب رہی۔ یہ جنگ 1954ء سے 1962ء کے درمیان لڑی گئی۔ اس سے قبل الجزائر پر نوآبادیاتی دور میں فرانس کا تسلط تھا۔ فرانس نے 1830ء میں الجزائر پر قبضہ کیا۔ قبضے کے لیے جنگیں ہوئیں بہت خون خرابہ ہوا۔ ابتدا میں قبضے کے بعد پچاس ہزار سے زیادہ فرانسیسی الجزائر منتقل ہوگئے یہ قبضہ کچھ ایسا ہی تھا جیسا کہ فلسطین پر اسرائیل کا۔ آہستہ آہستہ الجزائر کے میدانوں اور شہروں کے اہم حصوں پر فرانسیسی قابض ہوگئے۔ یہ قابض آباد کار فرانس، اسپین، اٹلی اور مالٹا وغیرہ آئے۔ ان کو فرانس کی حکومت کی پشت پناہی حاصل تھی۔ انیسویں صدی کے آخر میں الجزائر میں آباد ہونے والے یورپی اور یہودی دونوں کو فرانس کا شہری تسلیم کرلیا گیا۔ لیکن الجزائر کے باشندوں کی اکثریت کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا۔ یہاں تک کہ فوجیوں کو بھی ووٹ کا حق نہیں دیا گیا تھا۔ الجزائر میں آزادی کی تحریک فرانس تک بھی پہنچی تھی۔ فرانس میں مقیم الجزائر کے باشندوں نے 1961ء میں آزادی کے حق میں ایک ریلی نکالی۔ اس وقت پیرس میں رات کا کرفیو لگا دیا گیا تھا۔ پولیس کے سربراہ کو حکم دے دیا گیا کہ کرفیو کی خلاف ورزی برداشت نہیں کی جائے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ مظاہرین کو فائرنگ سے منتشر کرنے کی کوشش کی گئی۔ متعدد مظاہرین کو پیرس کے دریائے سین میں بھی پھینک دیا گیا۔ تاریخ داں بتاتے ہیں کہ اس واقعے میں 200 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔
بہرحال آزادی کی جنگ کامیاب ہوئی اور الجزائر آزاد ہوگیا۔ یہ افریقا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس سے پہلے سوڈان تھا لیکن جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے بعد الجزائر افریقا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کو الجیریا بھی کہتے ہیں۔ 1962ء میں الجزائر آزاد ہوگیا لیکن اس کی آزادی کچھ ایسی ہی ہے جیسی مصر کی۔ 1991ء میں الجزائر میں انتخابات پہلی دفعہ ہوئے۔ اس سے قبل الجزائر میں اختلاف رائے کی آزادی نہیں تھی۔ ایک کے سوا تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگادی گئی۔ 1991ء میں ہونے والے انتخابات میں اسلامک سالویشن فرنٹ نے جب پہلا مرحلہ جیت لیا تو فوج نے مداخلت کی اور دوسرا مرحلہ منسوخ کردیا گیا۔ اس کے بعد فوج نے مذہب کی بنیاد پر بننے والی ہر سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دے دیا۔ سیاسی چپقلش اس قدر بڑھی کہ خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ 1992ء سے 2002ء تک ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد مارے گئے۔ مورخین اور مبصرین کے بقول اس وقت کی حکومت نے اپنی فوج اور غیر ملکیوں (فرانسیسی اور یورپی وغیرہ) کی مدد سے شہریوں کو ہلاک کیا اور ذمے داری مختلف اسلامی گروہوں پر ڈال دی۔ یہ نو آبادیاتی دور کی حکومت کے ہتھکنڈے ہیں۔ جو ہر جگہ استعمال کیے گئے، برصغیر ہند و پاک میں بھی وہی کچھ کیا گیا اور آج افغانستان میں بھی کیا گیا۔ وہاں پر حملے کے لیے کیا دلیل ہے؟ معصوموں کو عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی؟ بدھا کی ناک توڑنا، یا اسامہ بن لادن کی اپنی سرزمین میں مہمان نوازی؟ آخر اسامہ بن لادن وہی تھا نا جس کو پہلے جنگی ہیرو کا خطاب دیا گیا۔ اور کیا بدھا کی ناک معصوم بچوں کی جانوں سے زیادہ قیمتی تھی؟ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کو توڑنے والے حملہ آوروں کے سہولت کار ہی ہوں۔ چلیں واپس الجزائر اور فرانس چلتے ہیں جہاں فرانسیسی صدر ماکرون کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ آئندہ برس الجزائر کی جنگ کے خاتمے کے 60 برس مکمل ہونے پر 3 روزہ تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔ آزادی حاصل کرنے والے ممالک اپنی آزادی کے لیے خوشیاں مناتے دیکھے گئے ہیں۔ اب پہلی دفعہ جنگ سے جان چھوٹنے کی خوشی مناتے کسی ملک کو دیکھا جائے گا۔ حالات بتارہے ہیں دنیا میں یہ روایت پڑنے کا امکان ہے کہ امریکا بھی افغانستان جنگ سے جان چھوٹنے پر ایسی تقریبات منعقد کرے گا۔ لیکن فی الحال وہ ناکامی کے اوپر کامیابی کا ملمع چرھانے پر بضد ہے۔ لیکن یہ ملمع اتنا جعلی ہے کہ ناکامی چھپائے نہیں چھپتی۔ امریکا کے نئے صدر کہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ معاہدے پر نظرثانی کی جائے گی اور ہم دیکھیں گے کہ امن معاہدے کے نکات کیا ہیں؟ یعنی امریکا اتنے عرصے معاہدہ معاہدہ کھیلتا رہا لیکن نکات سے ہی نہ آشنا رہا۔