برطانیہ کے مسلمانوں کی جاسو سی کے ہتھکنڈوں کے بارے میں انکشاف

1032

پچھلے دنوں اس سنسنی خیز انکشاف نے برطانیہ کے مسلمانوںکو لرزہ دیا ہے کہ ان پر گزشتہ دس برس سے منظم طریقہ سے جاسوسی ہورہی ہے جس کا طریقہ کار بھی نرالا اختیار کیا گیا ہے۔ مسلمان یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انہیں آخر اس ملک کا حقیقی شہری کیوں نہیں تسلیم کیا جاتا۔ برطانیہ کی حکمران جماعت ٹوری پارٹی کے آدھے سے زیادہ اراکین پارلیمنٹ اسلاموفوبیا میں مبتلا ہیں اور مسلمانوں سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ برطانیہ کے مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنے والے جاسوسوں کے اس گروہ کا سربراہ باب لیمبرٹ بتایا گیا ہے جس کا تعلق جاسوس ادارے MI5 سے تھا۔ ویت نام کی جنگ کے زمانے میں باب لیمبرٹ نے ویت نام کی جنگ کے خلاف مظاہرے کرنے والی تنظیم کے بھیس میں بائیں بازو کی تنظیموں میں گھس کر ان کے منصوبوں کی جاسوسی کرنے اور ان کے منصوبوں کو ناکام بنانے کا سلسلہ شروع کیا تھا جس میں اسے MI5 کا وسیع تعاون حاصل تھا اور جس کی بنیاد پر اسے نمایاں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
7جولائی 2005 کو لندن میں بم دھماکوں کے بعد باب لیمبرٹ نے برطانیہ کی مسلم تنظیموں میں گھسنے اور مسلم رہنمائوں سے قریبی روابط قائم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اور اس مقصد کے لیے اس نے مسلم کونٹیکٹ یونٹ کی داغ بیل ڈالی جس نے لندن کی بیش تر مساجد میں جاسوس گروہ قائم کیے اور خاص طور پر ان مسلم رہنمائوں سے روابط قائم کیے جن کے بارے میں شبہ تھا کہ یہ انتہا پسند ہیں اور جہادی خیالات کے حامی ہیں۔
مسلم رابطہ یونٹ کا دعویٰ ہے کہ پچھلے چند برسوں میں اس کی جاسوسی اتنی موثر رہی کہ ا س نے مسلم انتہا پسندوں کے حملوں کے ساٹھ سے زیادہ منصوبے ناکام بنا دیے اور اب بھی اس یونٹ کی جاسوسی اتنی موثر ہے کہ اس کو پورا علم ہے کہ برطانیہ میں کون سی مسلم تنظیم کیا سوچتی ہے اور اس کے کیا منصوبے ہیں۔ اس وقت برطانیہ میں بیس لاکھ مسلمان آباد ہیں اور ان کی پورے برطانیہ میں دو ہزار مساجد قائم ہیں۔ اس مسلم رابطہ یونٹ کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اسے جاسوس ادارے MI5 کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔ بعض مسلم رہنمائوں نے شکایت کی ہے کہ جاسوس ادارے کی طرف سے ان پر طرح طرح سے زور ڈالا جاتا ہے کہ وہ اس ادارے کے لیے جاسوسی کریں اور مسلم برادری کے مشتبہ افراد کی کاروایوں اور ان کے خیالات کے بارے میں اسے مطلع رکھیں اور اگر انہوں نے اس کام میں تعاون نہیں کیا تو انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مسلم رہنمائوں نے اس صورت حال پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے او ر اسے شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ مسلم رہنما بے حد مایوس ہیں کہ اس وقت اسلامو فوبیا اتنا عام ہے کہ ان کی کوئی شنوائی نہیں۔ ویسے بھی بورس جانسن کی کابینہ میں ہندوستانی نژاد وزرا کے اثر رسوخ نے مسلم رہنمائوں کی شنوائی اور مشکل بنا دی ہے۔