سال کہ سال

323

“کیا کررہی ہو؟”
سکندر نے مائرہ سے پوچھا جو الماری سے کپڑے نکال کر بیگ میں رکھ رہی تھی
” کچھ خاص نہیں،کل امی کے ہاں جانا ہے نا ،تو اس کی تیاری کر رہی ہوں”.
“ہم” سکندر نے ہنکارا بھرا
” کیا ہوا ،کچھ کام تھا”. مائرہ نے پوچھا
” نہیں کچھ کام تو نہیں ، مگر۔۔۔ ” وہ کچھ کہتے کہتے چپ ہوگیا
” مگر؟؟؟” مائرہ کو تشویش ہوئی ،وہ الماری کھلی چھوڑ کر بیڈ کے پاس آ کر کھڑی ہوگئی
“مگر کیا؟؟” اس نے بے چینی سے پوچھا
” کچھ نہیں ؛ رہنے دو ۔۔۔تم مائنڈ کر جاؤ گی”.
” ایسی کیا بات ہے؟ آپ بتائیں تو ،اور آپ کی بات کا کیوں مائنڈ کروں گی”.
“بات ہی ایسی ہے ،اور پھر ہماری شادی کو ابھی عرصہ ہی کتنا ہوا ہے ،تم مائنڈ کر سکتی ہو”
” اللّہ۔۔۔ کیا ہو گیا ہے،کیوں ایسی باتیں کر رہے ہیں” مائرہ کو ہول اٹھنے لگے
” اچھا تم بیگ تو تیار کرلو ،پھربات کرتے ہیں ”
” مگر۔۔۔۔چلیں ٹھیک ہے” اس کو یاد آیا کہ امی نے کہا تھا کہ بحث نہیں کرنی ،وہ چپ چاپ اٹھی اور بیگ تیار کرنے لگی ابھی بیگ کی زپ بند کرکے بیگ نیچے ہی رکھا تھا کہ ایسا لگا سکندر نے دھماکہ کردیا
” کل سب سے دل کھول کر مل کر آجا نا، پھر تو اگلے سال ہی جانے دوں گا”
سکندر کی بات سن کر مائرہ کی سانس اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے ہی رہ گئ
” اگ اگلے ۔۔۔اگلے سال۔۔کیوں؟؟” اس نے اٹکتے اٹکتے پوچھا
” کیوں کی کیا بات ہے،میں کہہ رہا ہوں یہ کافی نہیں ہے؟ ” سکندر نے سنجیدگی سے کہا
” نہیں ۔۔وہ میرا یہ مطلب نہیں ،بس میں یہ پوچھ رہی تھی کہ کیوں ۔۔؟ ” اس کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیسے پوچھے کہ ایسا کیوں کہہ رہا ہے
” دیکھا، میں نے کہا تھا نا کہ تم بڑا مان جاؤ گی؛ میری اتنی سی بات بھی نہیں مان سکتیں”
” نہیں ،اب ایسی بات بھی نہیں ، ٹھیک ہے جیسا آپ کہیں ،” مائرہ نے بمشکل آنکھوں میں آئے آنسو حلق سے اتارتے ہوئے کہا
ابھی تو وہ نئ دلہن ہی تھی ،بے شک سکندر بہت محبت کرنے والے شوہر تھے اور سسرال میں بھی بہت لاڈ اٹھائے جارہے تھے مگر اتنی جلدی میکے جانے پر پابندی ،اور وہ بھی سال بھر کی ،اس کی سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہے شوہر کی محبت اپنی جگہ مگر میکہ تو میکہ ہوتا ہے۔
” اور ہاں،وہاں جاتے ہیں اعلان نہیں کر دینا کہ اب اگلے سال ہی آؤں گی میں آپ کو لینے آؤں گا تو خود ہی بتا دوں گا “سکندر نے کہا تو اس نے سر ہلا دیا
“ٹھیک ہے نہ پکا وعدہ”سکندر نے اس سے پیار سے پوچھا
“جی پکا وعدہ “اس نے آنسوؤں کا پھنسا ہوا گولا حلق سے اتار کر مسکراتے ہوئے کہا
دوسرے دن صبح صبح جب وہ اس کو میں کے چھوڑنے جارہا تھا تو بہت خوش تھا دوسری طرف مائرہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ امی سے یہ بات کیسے چھپائے گی راستے بھر سکندر باتیں کرتا رہا اور مائرہ بس ہوں ہاں۔
اترتے اترتے اس نے ایک بار پھر مائرہ کو تاکید کی” کسی سے ذکر نہیں کرنا اور ذرا مسکراتے ہوئے جاؤ جیسے ہمیشہ جاتی ہو”
مائرہ نے بڑی مشکل سے مسکراہٹ چہرے پر لا کر سکندر کو خدا حافظ کہا اور اندر آگئی ۔
دن بھر وہ عجیب الجھن میں رہی کہ آخر سکندر نے ایسا کیوں کہا نائمہ اس کی چھوٹی بہن اس کو بار بار چھیڑ رہی تھی کہ” اب تو دولہا بھائ کے بغیر دل ہی نہیں لگتا ،دیکھو تو بارہ بج رہے ہیں چہرے پر،ایسا لگ رہا ہے کہ جیسےیہاں کبھی رہتی ہی نہیں تھی ۔”
اماں کو بھی فکر ہوئی
“مائرہ کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا نا ایسی الجھی الجھی کیوں ہو ”
“نہیں اماں بس سر میں کچھ درد ہے” اس نے ماں کو ٹالا
رات کو بھی آئے گا سکندر بھی ساتھ ہی آ گئے دونوں بیسٹ فرینڈ جو تھے کھانے پر بھی مذاق چل رہا تھا کہ اچانک سکندر نے کہا ” ذیشان یار تمہاری بہن تو بہت ہی بھولی ہے” ۔
ذیشان نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
“ارے بھائی کل یہاں آنے کیلئے تیاری کر رہی تھی تو میں نے کہا کہ اچھی طرح مل کر آنا پھر تو اگلے سال ہی ملاقات ہوگی اور ہماری بھولی بیگم اس وقت سے فق ہو گئی ہیں”
مائرہ اس وقت میکے میں تھی تو اس میں مزاحمت کی ہمت ہوئی
“ہاں تو کوئی ایسا کہتا ہے،سب ہی ہفتے یا پندرہ دن میں میکےجاتے ہیں تو میں کیوں اگلے ۔۔۔۔”اس سے بات پوری نہیں کی گئی اور آنکھوں میں آنسو آگئے
سکندر نے ذیشان کو آنکھ ماری جو نا ئمہ نے بھی دیکھ لی اور وہ بھی سمجھ گئی
“ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں دولہا بھائی اب تمہارا گھر وہی تو ہے اب یہاں تو میرا راج ہے”
“نائمہ!!!!”مائرہ حیرت سے گنگ رہ گئی
“اوہو، نہیں بھائی میں اپنی نازک سی حساس بہن کو پریشان نہیں دیکھ سکتا”ذیشان نے مائرہ کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا
“آئے گی تو یہ اگلے سال ہی، مگر پندرہ دن بعد ہی”
مائرہ کے آنسو ٹپکنے لگے تھے وہ ایک جھٹکے سے بھائی سے الگ ہوئی اور حیران نظروں سے دیکھنے لگی
” ارے بھی اگلے ہفتے نیا سال شروع ہو رہا ہے تو اب اگلے سال ہی تو آؤ گی نا”نائمہ نے ہنستے ہوئے کہا
” اف۔۔مجھے یہ خیال کیوں نہیں آیا”وہ سٹپٹائی
” اسی لیے میں نے منع کیا تھا کہ پہلے سے کسی کو کچھ نہیں بتانا ورنہ کوئی نہ کوئی تو بھانڈا پھوڑ ہی دیتا ” سکندر نے مزہ لیتے ہوئے کہا
“توبہ کتنے وہ ہیں آپ ” مائرہ نے کہا تو سب ہنسنے لگے ۔