امریکا، چین اور یورپ سمیت ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی آلودگی کے ذمے دار ہیں

520

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) امریکا ،چین اور یورپی ممالک سمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی آلودگی کے اصل ذمے دار ہیں ،یہ ممالک آلودگی کے باعث موسمیاتی تبدیلیوں سے انکاری ہیں اور اگرتسلیم کرتے بھی ہیں تو روک تھام کے لیے کچھ کرنے کو تیار نہیں ،گرین ہائوس گیسوں کے اخراج سے زمین کی حدت بڑھ رہی ہے اور کرئہ ارض کا درجہ حرارت اوسطا ً1.5 درجے سینٹی گریڈ بڑھ جاتا ہے توزمینی حیات کے لیے سانس لینا مشکل ہوجائے گا ،پاکستان جیسے ممالک جن کا گرین ہائوس گیسوں کا اخراج بہت کم ہے مگر آب و ہوا میں تبدیلی کے نقصانات بھگتنے میں یہ ممالک سرفہرست ہیں۔ان خیالات کا اظہاربین الاقوامی یونین برائے تحفظ فطرت کے میگزین کی ایڈیٹرشبینہ فراز،ماحولیاتی آلودگی اوراس کے سدباب کے لیے خدامت انجام دینے والے شاہد لطفی،جامعہ کراچی کے شعبہ انوائرمینٹل اسٹیڈیز کے اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وقاراورصفا یونیورسٹی کے سینئر لیکچرار محمد مصطفی رضا نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔15برس سے ماحولیات کے موضوع پر لکھنے والی سینئر صحافی ،ایوارڈیافتہ اوربین الاقوامی یونین برائے تحفظ فطرت کے میگزین کی ایڈیٹرشبینہ فرازکاکہنا تھا کہ ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں وہ یقینا سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے حوالے سے عہد زریں کہلا سکتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس نام نہاد ترقی نے اخلاقیات، اقدار اور سماجی بندھن کمزور کردیے ہیں۔ترقی یافتہ صنعتوں کی چمنیوں سے نکلتے دھوئیں نے فطرت کی متوازن خوبصورتی میں بدنما دراڑیں ڈال دی ہیں۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ آب و ہواکی تبدیلی کا اژدہا اب کرہء ارض پر زندگی کو نگلنے کو بے تاب کھڑاہے۔ ہزاروں سال کی پروان چڑھتی تہذیب و ثقافت اورزمین پر بسنے والے تمام جان دار اب بقا کے خطرے سے دوچار ہیں۔ عالمی تحقیقاتی ادارے جرمن واچ انڈیکس کی2019 ء میں جاری رپورٹ کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میںپانچویںنمبر پر آتا ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ ہم ’’ ٹاپ ٹین‘‘ میں شامل ہیں بلکہ 2010ء کے تباہ کن سیلاب کے بعد سے ہم اس حوالے سے اولین نمبروں پر ہی موجود رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا خطرہ سب سے زیادہ آبی وسائل کو ہی ہے اور اسی لیے خدشہ ہے کہ اگلی اور شاید آخری عالمی جنگ پانی پر ہی ہوگی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آج کرہ ء ارض پر انسان جو کچھ بھی بھگت رہا ہے اس کے ذمے دار تمام ترقی یافتہ ممالک ہیں ۔صرف امریکا ہی نہیں بلکہ تمام ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی تبدیلیوں سے انکاری ہیں اور اگرتسلیم بھی کرتے ہیں تو اس کی روک تھام کے لیے کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے(انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج IPCC) ( سے منسلک سیکڑوں اداروں اور ان سے وابستہ ہزاروں سائنس دانوں اور ماہرین کی موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے تیار کردہ 2018ء کی رپورٹ کے مطابق گرین ہائوس گیسوں کے اخراج سے زمین کی حدت بڑھ رہی ہے اور اگرکرہ ء ارض کا درجہ حرارت اوسطا 1.5 درجے سینٹی گریڈ بھی بڑھ جاتا ہے توزمین پر حیات کے لیے سانس لینا مشکل تر ہوجائے گا ۔سائنس دانوں کا واضح موقف ہے کہ دنیا جس طرح فطرت کی مخالف سمت بڑھ رہی ہے تو ممکن ہے کہ اس صدی کے آخر تک زمین کا درجہ حرارت 3 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے اور زمین پر حیات کی کوئی بھی شکل ممکن نہ ہورہے۔درجہ حرارت میں کمی کے لیے کاربن میں کٹوتی کسی ترقی یافتہ ملک کو برداشت نہیں ہے کیونکہ اس کا مطلب معدنی ایندھن میں کمی اور معیشت کے پہیے کو لگام دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا، روس، سعودی عرب اورکویت نے تویکسر اس رپورٹ کو مسترد کردیا تھا اور دیگر ممالک بھی اسے ماننے میں حیل و حجت کرتے رہے۔سب سے افسوس ناک اور مجرمانہ رویہ امریکا کا رہا جو اب پیرس معاہدے سے باہر نکل چکا ہے لیکن اب نئی حکومت کے آنے سے امید بندھی ہے کہ شاید امریکا اب موسمیاتی تبدیلیوں کی حقیقت کو تسلیم کرلے اور روک تھام کی کوششوں میں دنیا کے ساتھ کھڑاہو جائے ۔ان امیر اور ترقی یافتہ ممالک کی صنعتی ترقی اور معدنی ایندھن کا استعمال چھوٹے ممالک کے لیے شدید خطرات کا سبب بن چکا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنی مستحکم معیشت کے سبب ہر قسم کے خطرات سے نمٹ لیتے ہیں لیکن کمزورمعیشت کے حامل ممالک کو بقا کا خطرہ لاحق ہے۔پاکستان گرین ہائوس گیس پیدا کرنے والے ممالک میں بہت نیچے کہیں 135ویں نمبر پر آتا ہے مگر موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کا شکار ممالک میں ہمارا پانچواں نمبر ہے۔ پیرس ایگریمنٹ کا ایک اہم مقصد ایسے چھوٹے ممالک کے تحفظ کے لیے فنڈ کا قیام بھی تھا۔اس حوالے سے 2020ء کا سال بہت اہم تھا ، اس سال کی کانفرنس میں اہم فیصلے کیے جانے تھے مگر وائے افسوس کورونا وائرس کے باعث 2020ء میںکانفرنس آف پارٹیز کا انعقاد نہیں ہوسکا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کانفرنسیں تو ہر سال ہوتی ہیں مگر ان کا نتیجہ اب تک کچھ خاص نہیں نکل سکا ۔ویسے بھی 200ممالک کا کسی ایک نکتے پر اتفاق بہت مشکل بات ہے ۔دنیا ہمیشہ سے 2 حصوں میں منقسم ہے۔ ایک وہ بلاک ہے جو ترقی یافتہ ممالک کا ہے جو دراصل اس ساری خرابی کے ذمے دار ہیں۔دوسرا بلاک پاکستان جیسے ممالک کا ہے جن کا گرین ہائوس گیسوں کا اخراج تو بہت کم ہے مگر آب و ہوا میں تبدیلی کے نقصانات بھگتنے میں یہ ممالک سرفہرست ہیں۔دونوں بلاکوں کے درمیان کشمکش جاری ہے۔ کمزور بلاک کا کہنا ہے کہ ہمیں نقصانات سے نمٹنے کے لیے سرمایہ بھی دیا جائے اور ٹیکنالوجی بھی دی جائے۔ماحولیاتی آلودگی کے اثرات ، اس کی تشخیص اورر ماحولیاتی تبدیلیوں کی پالیسیاں اور پائیدار ترقیاتی اقدامات میں25 سال سے زیادہ کا تجربہ رکھنے والے شاہد لطفی کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی آلودگی کیا ہے اس کو ہم 2 حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ایک جو کمپنیاں گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کر رہی ہے اس سے دنیا بھر میں درجہ حرارت تبدیل ہو رہا ہے۔جس کی وجہ سے موسم بہت حدتک تبدیل ہو گیا ہے بارشیں متاثر ہو رہی ہیں۔اور ان کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی کمی ہو رہی ہے اور اس سے زراعت متاثر ہو رہی ہے۔یہ ایک چین سسٹم ہے۔ گرین ہاؤس گیس کی وجہ سے بہت ممالک اس کا شکار ہو رہے ہیں اور پاکستان بھی سرفہرست ہے۔کیونکہ ہماری معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے۔گرین ہاؤس گیس سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی سے منسلک انرجی سیکٹر۔انڈسٹری سیکٹر۔زراعت اور ٹرانسپورٹ شامل ہیں۔اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا جو بھی ترقی یافتہ ممالک ہے ان کا اس میں کافی حد تک حصہ ہے۔ان میں جن ممالک کا حصہ ہے ان میں امریکا 15سے18فیصد، چین 25سے 30فیصد، یورپی یونین 10فیصد، بھارت8فیصد، روس5فیصد اور جاپان 5فیصد شامل ہیں۔ گرین ہاؤس گیسز کے باعث ماحولیاتی آلودگی کی بڑی وجہ انڈسٹری۔انرجی سیکٹر اور ٹرانسپورٹ سیکٹر شامل ہیں۔ترقی یافتہ ممالک جیسا کہ امریکا کو اگر دیکھ لیں تو وہاں ٹرانسپورٹ اور انڈسٹری سیکٹر بہت زیادہ گرین ہاؤس گیس پیدا کرتا ہے۔یورپ کے کچھ ممالک سے زراعت سیکٹر کے ذریعے بھی گرین ہاؤس گیس کا اخراج ہوتا ہے۔ جوکہ دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ کی وجہ ہے .دوسری آلودگی کی بات کریں تو اس میں آلودہ پانی۔زمینی آلودگی اور ہوا کی آلودگی ہے۔یواین ڈی پی کے تحت اس طرح کی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف منصوبے چل رہے ہیں۔ورلڈ بینک کی جانب سے سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کو 2 پروگرامات دیے گئے ہیں جن کے نام کلک اور سوئپ ہیں۔ جامعہ کراچی کے شعبہ انوائرمینٹل اسٹیڈیز کے اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وقار کا کہنا تھاکہ ماحولیاتی آلودگی میں بڑا حصہ ان تمام ممالک کا ہے جس میں امریکا۔یورپ۔چین اور بھارت شامل ہیں۔جن ممالک کے شہریوں کا زندگی کا معیار بلند ہو وہ ممالک بھی ماحولیاتی آلودگی اور کاربن ڈائی آکسائڈ پیدا کرنے والوں میں شامل ہیں۔دنیا ٹاپ کے 10فیصد ممالک کے شہری 90فیصد وسائل پر قابض ہیں۔ جن ممالک کافی کس جی ڈی پی زیادہ ہے وہاںکچرے کی مقدار زیادہ ہے۔وہاں انرجی کا استعمال بھی زیادہ ہے۔جس کی وجہ سے ان کی جانب سے آلودگی میں بھی حصہ زیادہ ہوتا ہے۔ترقی پذیر ممالک اس سے بالکل مختلف ہیں ان کا فی کس جی ڈی پی کم ہے تو خود بخود انرجی کا استعمال بھی کم ہے اور آلودگی میں بھی ان کا حصہ کافی کم ہو جاتا ہے۔صفا یونیورسٹی کے سینئر لیکچرار محمد مصطفی رضا کا کہنا تھا کہ زراعت سے صنعتی ترقی کاسفر کرنے میںبھلے انسان کو ہزاروں سال کا سفر طے کرنا پڑے۔مگر اس ترقی اور خاص طور پر صنعتی ترقی نے نہ صرف انسانی بلکہ نباتاتی اور حیوانی زندگی پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔اٹھارویں صدی کے صنعتی انقلاب سے قبل انسان فطری ماحول میں رہنا پسند کرتے تھے۔امریکا اور یورپ کے ذہین کا کمال تھا کہ انہوںنے صنعتی ترقی سے انسانوں کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا لیکن اس صنعتی انقلاب کے جہاں بے شمار فوائد تھے وہیں اپنے اند ر ماحولیاتی آلودگی کی صورت میں ایک عفریت چھپائے بیٹھا تھا۔ماحولیاتی آلودگی اس وقت کسی گھر یا علاقے کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے بڑے امریکا اور یورپی ممالک ہیں اور یہ ممالک اس سنگین مسئلے پر توجہ نہیں دے رہے جس کی وہ متقاضی ہے ان کا کردار بہت شرمناک اور افسوس ناک ہے۔ آج اگر ماحولیاتی آلودگی کا جن قابو سے باہر ہے تو اس کی سب سے قابل بڑی وجہ یہ ممالک ہیں۔ گرین ہائوس کے اثرات بھی سب کے سامنے ہیں۔ قدرت کے ایک بہترین نظام کو ان ممالک کی بے جا ترقی کی ہوس نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ گرین ہائوس کو ہم اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ زمین سورج کی طرف کھینچی جانے والی بہت کم روشنی جذب کرتی ہے اور باقی کو واپس فضا میں بھیج دیتی ہے لیکن فضا میں موجود گیسیں اس فالتو توانائی کو روک کر زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ یہ ان ممالک کی صنعتی ترقی کی دوڑ ہے کہ جس نے نسل انسانی کو شدید خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ ساحل کے نزدیک آباد شہر ڈوب جائیں گے، 2017ء میں امریکا کے کچھ علاقوں میں درجہ حرارت (120 ڈگری فارن ہائٹ تک جا پہنچا جس سے نہ صرف انسانوں بلکہ جہازوں کی فلائٹس کو بھی متاثر کیا۔ پوری دنیا میں 9 ملین لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یہ انہی ممالک کی ہوس گیری ہے کہ اول تو ماحولیاتی آلودگی کے خلاف قوانین بننے ہی نہیں دیتے اور اگر کہیں بن بھی جائیں تو عمل درآمد نہیں ہوتا۔ 2015ء میں پیرس میں ماحولیاتی کانفرنس کے اختتام پر اقوام متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ ماحولیاتی آلودگی کے سبب دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔