سیاسی محاذ آرائی کے بجائے معیشت پر توجہ

695

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی اپنے عروج پر ہے۔ اپوزیشن جلسے کررہی ہے، ریلیاں نکال رہی ہے اور مطالبہ یہ ہے کہ حکومت استعفا دے اور گھر جائے۔ دوسری طرف حکومت نے بھی اپنے وزرا اور ترجمانوں کو اس کام پر لگایا ہوا ہے کہ اپوزیشن کو نشانے پر رکھیں اور اُن پر مخالفانہ بیانات کی گولہ باری جاری رکھیں۔ دونوں طرف کے یہ سیاستدان اپنی سیاست میں عوام کے مسائل بھول چکے ہیں جو الیکشن کے وقت انہیں یاد رہتے ہیں، اس وقت عوام کو سہانے سپنے دکھائے جاتے ہیں، خوشنما وعدے کیے جاتے ہیں، عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کی باتیں کی جاتی ہیں، لمبے لمبے منشور پیش کیے جاتے ہیں، لگتا ہے ان سے زیادہ عوام کا خیرخواہ کوئی نہیں۔
آئی ایم ایف اور عالمی بینک پاکستان کے معاشی مستقبل کے بارے میں طرح طرح کے اندیشے ظاہر کررہے ہیں مثلاً سال 2021ء میں معاشی نمو کی شرح 1.5 فی صد ہوجائے گی اس طرح افراط زر میں اضافے کا رجحان رہے گا۔ یہ اندیشے ملکی معیشت کے لیے اچھی خبر نہیں، اس سے پتا چلتا ہے کہ عوام کی مشکلات میں کمی نہیں ہوگی، جب کہ وزیراعظم سے لے کر وزرا تک یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ ملکی معیشت میں استحکام آرہا ہے، معیشت کی گاڑی پٹڑی پر آگئی ہے، مشکل وقت گزر گیا ہے، کرنٹ اکائونٹ مثبت ہوگیا ہے، اسٹاک مارکیٹ کا انڈیکس 45 ہزار کی حد عبور کر گیا ہے۔ ترسیلات زر میں 18 فی صد اضافہ ہوا ہے، برآمدات میں پچھلے ماہ 18 فی صد اضافہ ہوا ہے، روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہوئی ہے۔
پاکستانی عوام جب اس قسم کی حکومتی بیانات سنتے ہیں تو ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس طرح ان باتوں پر یقین کریں کیوں کہ جب وہ بازار جاتے ہیں تو چینی انہیں 90 سے 100 روپے فی کلو ملتی ہے، انڈے 200 روپے فی درجن ملتے ہیں، بجلی کا بل تین چار ہزار روپے آتا تھا، اب وہ 8 ہزار تک پہنچ گیا ہے، جب کہ چینی اور گندم کو بیرون مالک سے پاکستان لانے والے جہاز کراچی کی بندرگاہ پر لائن لگائے کھڑے ہیں اور حکومت اب تک 3 لاکھ میٹرک ٹن چینی اور ڈیڑھ ملین ٹن گندم درآمد کرچکی ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ بڑی مقدار میں درآمد کرنے کے باوجود مقامی نرخوں میں کمی کیوں نہیں آرہی۔ اسی طرح گندم درآمد کرنے کے باوجود مارکیٹ میں گندم کے ریٹ کم نہیں ہوئے۔ قیمتوں میں یہ مصنوعی اضافہ مڈل مین کی منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے باعث ہے۔ اس سے پہلے حکومت کے اپنے بنائے ہوئے انکوائری کمیشن نے یہ رپورٹ دی ہے کہ شوگر ملز چینی کی سپلائی روک کر اور ملک میں قلت پیدا کرکے منافع خوری کرتی ہیں۔ اگر یہ تمام رپورٹ آنے کے بعد بھی کوئی واضح کارروائی نہیں ہوتی اور چینی کے نرخ بڑھتے چلے جاتے ہیں تو اس کا صاف یہی مطلب ہے کہ حکومت ان منافع خوروں اور ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے گریزاں ہے، دوسری طرف کابینہ کی میٹنگ میں یا دوسرے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں مہنگائی میں اضافہ ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں، انڈے 200 روپے درجن ہونے پر اس کا نوٹس لیتے ہیں، قیمتوں کو کنٹرول میں لانے کے لیے احکامات جاری کرتے ہیں لیکن نتیجہ نکلتا نظر نہیں آتا۔
حکومت کو سیاسی محاذ آرائی کو بڑھانے اور سیاسی بیان بازی کا مقابلہ جیتنے کے بجائے اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ معاشی میدان میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کی تکالیف کا ازالہ کرے۔ چینی، آٹا اور پٹرول کے بحران کے بعد عوام اب گیس کی قلت کے عذاب سے دوچار ہیں جس میں سراسر سرکاری نااہلی اور ناقص کارکردگی کا دخل ہے۔ اسی طرح گردشی قرضوں کا پہاڑ بلند ہوتا جارہا ہے، اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ ترقیاتی فنڈز کی دستیابی کے لیے ٹیکسوں کی وصولیاں بہت ضروری ہے لیکن ایف بی آر نے مالی سال 2020-21 کے پہلے چھ ماہ یعنی جولائی تا دسمبر کے ٹیکسوں کا ہدف پورا نہیں کیا ہے۔ اس کا یہ نتیجہ برآمد ہوگا عوام پر خرچ ہونے والے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی ہوجائے گی۔ کووڈ کی وجہ سے پچھلے سال کروڑوں نوکریاں ختم ہوگئیں، بے روزگاری کے خاتمے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے، چناں چہ حکومت ان پہلوئوں پر توجہ دے گی تو اس کے استحکام اور مقبولیت کا باعث ہوگا۔ .