سال گزشتہ کی بربادیاں اور نئے سال کی امیدیں ـ ڈاکٹررضوان الحسن انصاری

925

یوں تو مسلمانوں کا نیا سال ماہ محرم سے شروع ہوتا ہے لیکن دنیا کا تمام کاروبارِ زندگی خصوصاً معاشیات، مالیات اور حسابات جیسے معاملات عیسوی سال کے حساب سے چلتے ہیں اس لیے کیوں نہ گزرے ہوئے سال کو پیچھے مڑ کر دیکھ لیا جائے، کیوں کہ سال 2020ء پاکستان سمیت دنیا بھر کے لیے ایک دہشت ناک اور اذیت ناک سال تھا۔ جس کی وجہ آپ سب جانتے ہیں کورونا وائرس کا ظہور تھا جس نے انسان کی معاشی، سماجی اور نفسیاتی زندگی پر گہرا اثر ڈالا اور ابھی تک ڈال رہا ہے۔ معاشی زندگی کے پیمانے بدل گئے، سماجی رویے تبدیل ہوئے اور نفسیاتی طور پر انسان خوف کا شکار ہوگیا۔
سال ِ گزشتہ نے انسان کو کچھ نئی اصلاحوں سے آگاہ کیا مثلاً سماجی فاصلے (Social Distancing)، آن لائن میٹنگ، ورک فرام ہوم (Work From Home) اور لاک ڈائون۔ اس لاک ڈائون نے انسانیت کو جس تباہی سے دوچار کیا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ تجارت، سیاحت، صنعت، زراعت، صحت اور تعلیم کون سا شعبہ ہے انسانی زندگی کا جس میں بربادی نہ آئی ہو۔ عالمی سطح پر اٹھارہ لاکھ سے زائد افراد لقمہ ٔ اجل بن چکے ہیں۔ دنیا کی معیشت 5 فی صد سکڑ چکی ہے۔ عالمی معاشی اور مالیاتی ادارے اس کا حساب لگا رہے ہیں مالیاتی نظر سے دیکھا جائے تو عالمی بینک کے مطابق 9 کھرب ڈالر کا دنیا کو نقصان ہوچکا ہے۔ اگر پاکستان پر نظر ڈالیں تو یہاں بھی کورونا کی تباہ کاریاں کم نہیں۔ 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ معاشی نمو منفی ہوچکی ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو سب کے سامنے ہیں۔ لاک ڈائون کی وجہ سے ملازمین گھروں سے آن لائن کام کررہے ہیں۔ باقی کو عملاً فارغ کردیا گیا ہے۔ ٹرانسپورٹ اور ٹورازم (Tourism) کے شعبے بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
پاکستان دوہری مصیبت کا شکار ہوا۔ ایک طرف لاک ڈائون دوسرے آئی ایم ایف کی سخت شرائط، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں پہلے ہی 30 فی صد کمی آچکی تھی۔ شرح سود انتہائی بلند سطح 13.25 فی صد تک پہنچ گئی تھی۔ نجی سرمایہ کاری کی شرح سال شروع ہوتے ہی کم ہوگئی تھی، اس لیے کورونا وائرس سے پہلے ہی معاشی ترقی کے بارے میں معیشت دان طرح طرح کے اندیشے ظاہر کررہے تھے۔ کورونا کی وبا نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ افراط زر 12 فی صد تک نیچے چلا گیا اتنی مہنگائی کہ غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی ناممکن ہوگئی۔ دوسری طرف ملک میں موجود مافیاز اور بیورو کریسی سے لے کر آٹا، چینی اور پٹرول کے بحران کھڑے کرکے عوام کی زندگیوں کو مزید اجیرن کردیا۔ ٹماٹر 300 روپے کلو، چینی 110روپے کلو، انڈے 220 روپے درجن۔ ایک طرف مہنگائی دوسرے بے روزگاری، پاکستان میں ماہرین معیشت کے تخمینے کے مطابق ساٹھ ستر لاکھ نوکریاں ختم ہوچکی ہیں، اس سے لوگوں کی غربت، بے بسی اور حالت زار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ گردشی قرضے ملکی معیشت کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں۔ گزشتہ سال یہ قرضے 2300 ارب روپے تک پہنچ گئے تھے۔ آنے والے دنوں میں قرضوں کا بوجھ بڑھنے کی وجہ سے پاکستان دوبارہ آئی ایم ایف سے رابطہ کرنے کا سوچ رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبات وہی ہیں جو پہلے تھے یعنی آمدنی میں اضافہ کیا جائے اور اخراجات میں کمی کی جائے۔ اس سلسلے میں پاکستان چند ماہ پہلے اسٹیل ملز سے 4500 ملازمین برطرف کرچکا ہے۔ اب بجلی کے نرخ بڑھانے کی باری ہے۔ جس کے نتیجے میں مہنگائی کا دوسرا طوفان آئے گا۔ صنعتی اور زرعی اشیا کی پیداواری لاگت بڑھنے کی وجہ سے دوبارہ قیمتیں بڑھیں گی۔ دوسری طرف برآمدات کے مہنگا ہونے کی وجہ سے اُن میں اضافے کا زیادہ امکان نہیں۔ چناں چہ پاکستانی روپے پر دبائو رہے گا اور اس طرح روپے کی قدر میں کمی بھی ہوسکتی ہے۔ مختصراً یہ کہ آنے والے سال میں بھی ملکی معیشت میں نمایاں بہتری کا امکان نہیں۔
بلاشبہ حکومت نے تعمیراتی شعبے کو مراعات دی ہیں اور سرمایہ کاروں کو مزید چھ ماہ تک اور خریداروں کو 27 ماہ تک آمدن کے ذرائع نہ بتانے کی چھوٹ دی ہے اور بینک معمولی شرح سود پر قرضے دینے کے پابند ہوں گے۔ ان اقدامات سے تعمیرات کے شعبے میں حرکت نظر آئے گی۔ ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہوں گے مگر معاشی مسائل اتنے گمبھیر اور ہمہ پہلو ہیں کہ اُن کے لیے ہمہ گیر اقدامات کی ضرورت ہے۔