شیوہ پیغمبری والاگروہ

359

نبوت کا منصب سنبھالنے کے بعد نبی اکرم ﷺ نے جب اپنے خاندان کو دعوت پر بلایا اور ان کے سامنے دین مبین کی دعوت رکھی تو انہیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور اس مخالفت میں ایک آواز ابھری اور ایک نو عمر نے پوری جرات و ہمت سے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں اگرچہ چھوٹا ہوں مگر زندگی بھر آپ کا ساتھ دینے کا اعلان کرتا ہوں ۔ اس نو عمر نوجوان کو تاریخ حیدر کرار اور شیر خدا حضرت علی کے نام سے جانتی ہے ۔
الصفہ کے چبوترے اور دارارقم میں نبی مہربان کی تربیت کے نتیجے میں نوجوان صحابہ کرام کا ایسا گروہ تیار ہوا جس نے تاریخ اسلامی میں اپنے علم ،عمل،ایثار،قربانی اور جرات و بہادری کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ تاریخ نے نہ ان سے پہلے ایسے کردار دیکھے تھے اور نہ ہی تا قیامت شاید دیکھ سکے گی۔
ان نوجوان صحابہ کرام میں زبیر بن العوام ہوں ، مصعب بن عمیر ہوں، اسامہ بن زید ہوں ،یا زید بن ارقم ہوں ،ہر ایک کی اندگی مسلم نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے اور اسی کردار سے مزین نوجوان تیار کرنا اسلامی جمعیت طلبہ کا مقصود ہے ۔
اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان اپنے واضح نصب العین ،اللہ اور اس کے رسول کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق انسانی زندگی کی تعمیر کے ذریعے رضائے الہیٰ کا حصول ،کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے طول و عرض میں دین مبین کی آفاقی دعوت کا فریضہ انجام دے رہی ہے اور جمعیت کے مخاطب پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے یہی نوجوان طلبہ ہیں کہ جو پاکستان کا مستقبل ہیں ۔جن سے پاکستان کے استحکام اور تعمیر و ترقی کی امیدیں وابستہ ہیں ۔
آج کے معاشرے کا اگر ہم احاطہ کریں تو یہ دور نوجوانوں کے لئے بالخصوص آزمائش کا دور ہے۔ نفسا نفسی ،دین سے بیزاری،دنیا داری ،الحاد و مادیت پرستی اور مغربی تہذیب کے باطل نظریات اپنے پھن پھیلائے ان نوجوانوں کے ذہنوں میں اپنا زہر اتارنے کے ساتھ ساتھ جہنم کا ایندھن بنانے میں مصروف عمل ہیں اور ان نوجوانوں کی اپنے اسلاف ،اپنی روشن تاریخ ،نظریہ زندگی اور نظریہ پاکستان سے واقفیت صرف چند کتابوں کی تحریروں تک محدود ہے ، اور حال یہ ہے کہ :
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر نہ کر سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
ایسے میں ان تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں ہے ۔اپنے قیام سے لے کر آج تک جمعیت نے اپنے لٹریچر ،پروگرامات اور اپنے بہترین منظم نیٹ ورک کی بدولت لاکھوں زندگیوں کو صراط مستقیم کے پر نور راستوں پر گامزن کیا اور انہیں حقیقی معنوں میں مقاصد زندگی سے آشنائی فراہم کر کے بامقصد زندگی گزارنے کا قرینہ و سلیقہ سکھایا۔
خطہ برصغیر بالعموم اور پاکستانی معاشرہ بالخصوص جو مسلکی بنیادوں ،علاقائی بنیادوں اور لسانی و نسلی بنیادوں پر منقسم ہے اور ہر مکتب فکر کے لئے دوسرے کو برداشت کرنے کا کلچر ناپید ہے ۔ایسے معاشرے میں صرف اور صرف اسلامی جمعیت طلبہ کا خاصہ ہے کہ
یہی دستور فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری ،محبت کی فراوانی
کے مصداق جمعیت تمام مسلکی ،علاقائی اور نسلی و لسانی تعصبات سے بالاتر ہو کر ایک کلمہ طیبہ اور ایک پاکستان کی بنیاد پر سب کو ایک لڑی میں پرو کر اپنا دست و بازو بنا کر اتحاد و یگانگت کا عملی مظاہرہ پیش کرتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جمعیت کے اس گلشن میں ہر علاقے ،نسل ،زبان اور مسلک کے طلبہ موجود ہیں اور دین مبین اور پاکستانیت کی دعوت عام کر رہے ہیں ۔
اور یہ تعلیمی ادارے جن کو مولانا مودودی نے ’’ قتل گاہیں ‘‘ اور یہاں سے جاری ہونے والی اسناد کو ’’ موت کے صداقت نامے ‘‘ قرار دیا تھا ، کیونکہ اس مغرب زدہ نظام تعلیم میں دراصل ہمارے نوجوانوں کی اسلامیت اور احساس خود داری کو قتل کر کے مغرب کا ذہنی غلام بنایا جاتا ہے ۔ان ہی تعلیمی اداروں میں جمعیت بنیادی طور پر تین دائروں میں طلبہ کی تربیت اور رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتی ہے ۔
پہلا دائرہ : بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ، اس کا علم حاصل کرنا اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی عملی تربیت حاصل کرنا ہے ۔
دوسرا دائرہ : بحیثیت پاکستانی تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر ایک فرض شناس اور محب وطن شہری کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا اور پاکستان کے استحکام اور تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے ۔
جبکہ تیسرا دائرہ : جس میں جمعیت راہنمائی اور تربیت فراہم کرتی ہے وہ ایک طالب علم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسن ادا کرنا ہے ۔ جن میں اخلاق و کردار سے لے کر اپنی فیلڈ میں کامیابی اور مہارت تک کی ذمہ داریاں شامل ہیں ۔
ان سب سے بالاتر ہو کر میں یہ سمجھتا ہوں کہ جمعیت کا سب سے بڑا کارنامہ فتنوں کے اس دور میں جوانوں کو فکری و عملی پاکیزگی اور مقصد زندگی کا شعور عطا کرنا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو رب کریم کی امانت سمجھتے ہوئے پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بنانے اور اسلامی معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے اپنے آپ کو علم و فضل کی خصوصیات سے مزین کر سکیں ۔جیسا کہ بانی اسلامی جمعیت طلبہ و مفکر اسلام سید مودودی نے جمعیت کے بارے میں لکھا ہے کہ :
’’جمعیت 1947ء کے اواخر میں قائم ہوئی تھی ۔یہ سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ان طلبہ کی تنظیم ہے جو ہمارے ملک کی درس گاہوں میں سائنس ، معاشیات ،قانون،انجنیئرنگ ،ڈاکٹری ،فلسفہ اور دوسرے جدید علوم کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی رجحانات بھی رکھتے ہیں اور اخلاقی قدروں کو بیدار کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔ ان نوجوانوں میں آپ کو ایسے افراد بھی ملیں گے جو جدید مغربی علوم کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ تہجد گزار بھی ہیں اور ان نوجوانوں نے پچھلے کئی برسوں میں نوجوان نسل کے اعتقادی اور اخلاقی بگاڑ کو روکنے اور انہیں ملحدانہ خیالات اور فاسقانہ افعال کے سیلاب سے بچانے کے لئے بہت کام کیا ہے ۔مجھے ان طلبہ کے انہی اوصاف کی بنیاد پر ان سے دلچسپی ہے ۔کیونکہ میں اس ملک میں ایسے نوجوان دیکھنا چاہتا ہوں کہ جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سچے اور پکے مسلمان رہیں ‘‘۔
در جوانی توبہ گردن شیوہ پیغمبری است
وقت پیری گرگ ظالم می شود پرہیز گار !