ہم سے ہے زمانہ ۔۔ ۔۔۔زمانے سے ہم نہیں

179

لازوال قربانیوں اور طویل جدو جہد کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کی دعائیں رنگ لائیں اور وہ ایک آزاد اورنظر یا تی ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے علامہ اقبال اور قائداعظم کے نزدیک اسلامی ریاست کا قیام پہلا قدم تھا جہاں اسلامی قانون نافذ کیا جاسکے قائداعظم کی نظر میں ’’حصول پاکستان خود منزل نہ تھا بلکہ حصول اور قیام پاکستان تو منزل مراد پالینے کا ایک ذریعہ تھا‘‘ جس کی وضاحت انہوں نے اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے 13 جنوری 1946ء کو ان الفاظ میں کی۔’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ایک ایسی تجربہ گا ہ حاصل کرنا مقصود تھا جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں‘‘۔مگر یہ بات سوشلسٹ انقلاب کا نعرہ لگانے والوں کو ہضم نہ ہوئی اور انہوںنے ملکِ عزیز کے قیام عمل میں آتے ہی سازشوں کا آغاز کردیا۔ اور اس کا بیس کیمپ تعلیمی اداروں کو بنایا۔ چنانچہ اشراکیت ، لادینیت اور اباحیت کا ایک سیلاب تعلیمی اداروں میں شد و مد سے داخل ہوگیا۔ جس کا مقصد پاکستان کے مستقبل ، نوخیز طلبہ کو بہکا کر اپنے مذموم مقاصد کا حصول تھا۔ لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ سید مودودیؒ جو کہ پاکستان کا مستقبل دور اندیشی سے دیکھ رہے تھے، نے نئی نسل کو اسلام کا شعور دینے اور تعلیمی اداروں میں لادینی اور اباحیت کی روک تھام کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ کا پودا لگایا ۔ یہ ناتواں پودا موسم کی سختیاں برداشت کرتا اور زمانے کے اتار چڑھائو دیکھتا آج 66سال گزرنے کے بعد ایک تنا ور درخت بن چکاہے جس کی جڑیں تمام وطن اور شاخیں پورے عالم تک گھنی ہیں۔ جس کے اثرات صرف تعلیمی اداروں تک محدود نہیں رہے بلکہ قومی دھارے اور اجتماعی تمدن تک بھی محسوس کیے جارہے ہیں۔ اس شجر سایہ دار کو اکھاڑ پھینکنے کا سوچنے والے خود صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔
جمعیت نے اپنے قیام سے تاحال تعلیمی مسائل کے حل کو سرفہرست رکھا۔ 1960-1970 کی دہائیوںمیں بننے والے نورخان تعلیمی کمیشن اورحمود الرحمن تعلیمی کمیشن کو اپنی سفارشات پیش کیں۔ جنرل ضیاء الحق کو تعلیمی مسائل کے حل کے لیے میمورینڈم پیش کیا۔ طلبہ یونین کے دور میں جمعیت ہی طلبہ کی منظور نظر جماعت رہی اور آخری انتخابات میں جمعیت نے زیادہ تر تعلیمی اداروں میں کلین سویپ کیا۔ مگر یہ بات حاکم وقت کو ناگوار گزری اور اس نے 9فروری1984کو پنجاب بھر کی طلبہ تنظیموں اور یونینز پر مارشل لاء کے ایک ضابطے کے تحت پابندی عائد کردی۔ نیز 10فروری کو سند ھ میںٰ بھی طلبہ تنظیموں اور یونینز پر پابندی لگا دی گئی ۔ فوجی آمریت کے سخت ترین دور میںجب چہار سو ہو کا عالم تھا اس پابندی کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی تحریک چلائی گئی جس کی پاداش میں جمعیت کے ذمہ داران کو نہ صرف پابند سلاسل کیا گیابلکہ ناظم اعلیٰ کو سمری ملڑی کورٹ پشاور کی طرف سے ایک سال قید بامشقت ، ایک لاکھ روپے جرمانہ اور 15کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔ سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کرکے مختلف سزائیں سنائی گئیں جبکہ 39کارکنان کا تعلیمی اداروں سے جبری طور پر اخراج کردیا گیا۔
چونکہ ا شتراکیت، اباحیت اور لادینیت کے اثرات اس خطہ ارضی پر موجود ہونے کی بناء پر، وطن عزیز کے تعلیمی اداروں میں اپنی نرسری پروان چڑھا رہے تھے اور یہ ٓ اگ اس قدر بھڑکی کہ نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں سامنے آیامگر انہوں نے اس پر بس نہ کی بلکہ ان کا مقصد اس ملک سے اسلامی نظریات و ا قدار کا خاتمہ کرنا تھا ۔ چاہے وہ ختم نبوت سے انکار کی صورت میں قادیانیوںکی حوصلہ افزائی ہو یا فحاشی و عریانی کی تحریک کے ذریعے عورتوں کی آزادی کے نام پر خاندان کی عزت کا جنازہ نکالنے کی صورت میں ہو یا لسانی ومذہبی تعصب کو فروغ دینے کی صورت میں ارض پاک پر سازشوں کی یلغٓار جاری رکھی ۔مگر
وقت کے امام سید مودودی نے کہا تھا (کہ ایک وقت ایساآئے گا جب کمیونزم ماسکو میں اپنے بچاؤ کے لیے پریشان ہوگا ،سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی،مادہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونیورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا ،نسل پرستی اور قوم ہپرستی خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پاسکے گیاور یہ آج کا دور صرف تاریخ میں ایک داستان عبرت باقی رہ جائے گا۔) چنانچہ اشتراکیت کے اس سیلاب کا جمعیت نے نہ صرف ادراک کیابلکہ پوری قوت کے ساتھ اس کا مقابلہ کر کے اسے شکست فاش سے ہمکنار کیا۔اور اس مقصد کے حصول کے لیے ،دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے کہ مصداق جمعیت نے بہترین حکمت عملی اپناتے ہوئے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی شکست خوردہ لوگ الزامات کی بوچھاڑ کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر صالح اور پاکیزہ نوجوانوں کی یہ تحریک جنہوں نے دلوں کو فتح اور دماغوں کو مسخر کرتے ہوئے بے مقصد انسانوں کو زندگی کا نصب العین دیا اور شعور آگہی سے ہمکنار کیا اور اپنی جوانیاں اللہ رب العالمین کی بندگی اور ہادی اعظم کے لائے ہوئے دین کے غلبہ اور سربلندی کے لیے وقف کردیں اور تا حال حالات کی سختیوں اور مزاحمتوں کا سامنا ہمت اور جوانمردی سے کررہی ہے۔
چنانچہ 1982ء تا 1996تک تعلیم بچائو مہم ، ہفتہ اسلامی نظام تعلیم ، طلبہ مسائل مہم ، اصلاح نظام تعلیم مہم کے ذریعے ملک میں اسلامی نظام تعلیم کے قیام کے لیے کوشاں رہی، تعلیمی اداروں کی نجکاری کا معاملہ ہو یا پھر نصاب تعلیم میں تبدیلی،سیلف فنانس سکیم،فیسوں میں بے جا اضافہ ،بدستور تعلیمی بجٹ میں کمی اور آغاخان بورڈ کے خلاف مہمات کے ذریعے جمعیت نے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے تعلیم و طلبہ دشمن فیصلے واپس لیں۔
جمعیت نے ہمیشہ تعلیمی اداروں میں نئے آنے والے طلبہ کیلئے استقبالیہ جات، کتاب میلے، مشاعرے، مباحثے ہفتہ کتب، مذاکرے، طلبہ عدالتیں، ٹورنامنٹس، اسپیکرز فورم، سیمنارز، راہنمائے داخلہ کیمپ ، فری کوچنگ کلاسز، بک بینک، پکنک ٹورز کا اہتمام سمیت مختلف سرگرمیاںکا انعقاد کیا اگر یہ سرگرمیاںجمعیت کی دہشت گردی کا مظہر ہیں تو یقینا لکھنے والوں کو تعصب کی عینک اتار کر دیکھنا چاہیے۔ تنقید برائے تنقید کبھی اصلاح کا باعث نہیں بنی۔آج کے اس پر فتن دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ازم کی ٹرمینالوجیز سے جان چھڑا کر اسلام کو دین حق اور راہ ہدایت مانیں کیونکہ یہی دنیا و آخر ت میں کامیابی کا باعث ہے۔