عالمی یوم ِ انسدادِ بدعنوانی

376

عالمی یوم ِ انسداد ِ بدعنوانی ہر سال منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد عوام میں بدعنوانی کے متعلق آگاہی پیدا کرنا، اس کی روک تھام اور اسے بڑھاوا دینے والے عوامل کا تدارک کرنا شامل ہیں۔ بدعنوانی ایسا جرم ہے جو دنیا بھر کے معاشروں اور مختلف طبقات کو متاثر کرتا ہے۔ بدعنوانی جمہوری اداروں کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ بدعنوانی کی وجوہات سیاسی، معاشی، ماحولیاتی، پیشہ ورانہ، اخلاقی اور شماریاتی نوعیت کی ہو سکتی ہیں۔ معاشرے میں بدعنوانی مختلف شکلوں میں ملتی ہے جیسے کہ رشوت، بھتا خوری، اقربا پروری، اثرو رسوخ اور غبن وغیرہ شامل ہیں۔ بدعنوانی سے آگاہی کے لیے اقوام متحدہ کے ایجنڈے 2030 کے مطابق اس دن کے حوالے سے اس سماجی، سیاسی و معاشی جرم کی پہچان کروانا مقصود ہے۔
مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ بدعنوانی کئی دائروں میں تباہی پھیلاتی ہے اس سے انتخابی عمل بھی متاثر ہوتا ہے اور انصاف و قانون کی بالا دستی کمزور ہوجا تی ہے۔ اس کے علاوہ معاشی ترقی رُک جاتی ہے کیونکہ براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ خاص طور پر مُلک کے چھوٹے کاروبار ی افراد بد عنوانی کے باعث منڈی میں قدم جمانے کے قابل نہیں ہو پاتے۔ غیر قانونی اور مجرمانہ کاروبار کرنے والے ادارے اور افراد بدعنوانی کے ذریعے سے ذاتی مفاد حاصل کرتے ہیں۔ ان غیر قانونی اور بدعنوانی پر مشتمل سرگرمیوں میں ادویات کی اسمگلنگ، پیسے کی غیر قانونی ترسیل، انسانی اسمگلنگ، اسلحہ کی اسمگلنگ، اجناس اور کھانے پینے والی چیزوں کی اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی وغیرہ ہو سکتے ہیں۔
بدعنوانی ایک پیچیدہ سماجی، معاشرتی، سیاسی اور معاشی طرز ِ عمل ہے۔ جس کا شکار عالمی سطح پر تمام ممالک ہوتے ہیں۔ بد عنوانی جمہوری اداروںکی ساکھ متاثر کرتی ہے، معاشی ترقی کا عمل سست ہوجاتا ہے۔ اور حکومتی کارکردگی میں عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے۔ اقوام ِ متحدہ کے مطابق ہر سال ایک ٹریلین ڈالر رشوت کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں۔ جبکہ تخمیناً2.6 ٹریلین ڈالر کی خطیر رقم بدعنوانی کے ذریعے سے چُرالی جاتی ہے۔ یہ چرائی جانے والی رقم ترقیاتی فنڈ (GDP) کے 5فی صد سے زائد ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دُنیا بھر کے ترقی پزیر ممالک میں اقوام ِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے لیے دی جانے والی امدادی رقوم کا بڑا حصہ بدعنوانی کی نذر ہوجاتا ہے۔ حکومتی سطح پر مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرضوں میں بدعنوانی کی وجہ سے تیسری دُنیا کے ترقی پزیر ممالک کے اکثریتی عوام غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ اور سال بہ سال اُن پر بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے۔
دُنیا بھر میں حکومتیں، نجی ادارے، غیر سرکاری تنظیمیں، ذرائع ابلاغ اور عوام اس بُرائی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں مشترکہ قوت ہیں۔ بدعنوانی کی روک تھام اور خاتمے کے لیے اقوام ِ متحدہ کے ادارے ترقیاتی فنڈ (UNDF) اور منشیات اور جرائم کے خاتمہ کر لیے ادارہ (UNODC) ان کوششوں میں ہراول دستہ کے حیثیت رکھتے ہیں۔
بدعنوانی کے خلاف مہم میں دُنیا بھر کے نوجوان طبقہ کی شمولیت بھی ایک اہم جز ہے۔ اقوام متحدہ کے ’’ بد عنوانی کے خلاف متحد‘‘ کے موضوع سے مہم اس بات پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے کہ بدعنوانی، ترقیاتی اہداف کے حصول میں بڑی رکاوٹ ہے۔ عوام کے لیے ترقیاتی فنڈز کا نجی/ذاتی مفاد کے لیے غلط استعمال، عوام کو اُن کی آزادی، صحت، زندگی اور مستقبل سے محروم کر سکتا ہے۔
ٹرانسپائرنسی انٹرنیشنل کے جاری کردہ بد عنوانی کے انڈکس (2019) کے مطابق 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 120 ہے۔ بدعنوانی سے قدرے پاک ممالک میں ڈنمارک، فن لینڈ، نیوزی لینڈ، سوئیڈن، سنگاپور اور سوئٹزر لینڈ شامل ہیں جبکہ بدعنوان ترین ممالک میں افریقی مُلک صومالیہ کا نام آتا ہے۔
مُلکِ خُدا داد پر بدعنوانی کے حوالے سے نظر ڈالیں تو یہ بُرائی بڑی حدتک نظام میں موجود پائی گئی ہے۔ خاص طور پر حکومتی اداروں میں اس سلسلے میں ماحول ناخوش گوار اور مایوس کُن ہے۔ اعلیٰ حکومتی سطح پر فوری احتساب اور انسداد ِ بدعنوانی کے لیے موثر قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ اگرچہ اس ضمن میں قومی ادارہ احتساب بیورو کا قیام ایک خوش آئند قدم ہے۔ اس ادارے نے سرکاری اور غیر سرکاری اہم شخصیات کی بدعنوانی کے خلاف مکمل تحقیقات کے بعد جرأت مندانہ کاروائیاں کی ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے ذرائع ابلاغ اور حذب ِ مخالف کے حلقوں سے یہ سننے میں آرہا ہے کہ یہ کاروائیاں سیاسی انتقام پر مبنی ہیں۔
عالمی یوم ِ انسدادِ بدعنوانی کے حوالے سے ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام اس سماجی و معاشی برائی کے تدارک کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کو مثبت اور تعمیری طریقوں سے جیتنے کی کوشش جاری رکھیں۔ اقوام ِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری انٹونیو گوٹریس کے مطابق اس دن خاص طور پر اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دُنیا بھر میں قیمتی وسائل کا استعمال عوام کی فلاح و بہبود اور خدمت کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ مستقبل میں عالمی تبدیلی کی ذمے دار نئی نسل اس ضرورت کو محسوس کرتی ہے کہ عالمی قیادت، دنیا بھر میں تجارت، سیاست، ذرائع ابلاغ، سول سوسائٹی میں احتساب اور ایماندار رویوں کو فروغ دے۔ اس ضمن میں نوجوان طبقہ کو متحرک اور مضبوط بنا کر انسداد ِ بدعنوانی کے لیے ایک متوازن اورکامیاب سلجھائو کی طرف پیش رفت ممکن ہو سکتی ہے۔