آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟

265

آج سے49 سال قبل‘ دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک‘ پاکستان کے ساتھ ایک سانحہ ہواتھا‘ وہ ملک جو لاکھوں قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا‘ اس کا ایک بازو ڈھاکا کے پلٹن میدان میں تہہ تیغ کردیا گیا‘ تحریک پاکستان کی کارکن ہماری وہ بزرگ نسل جس نے پاکستان بنایا تھا وہ آج کا دن کیسے گزارے گی؟؟؟ اور کون ہے جو آج انہیں اپنے جواب سے مطمئن کرپائے گا؟ آج ہر پاکستانی کے سوچنے کا دن ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے تھا اور ہم اس ملک کے لیے کیا کر رہے ہیں‘1947 سے کر آج تک کا سفر73 سال پر محیط ہے ان میں49 سال ہم نے سقوط ڈھاکا کی تلخ یاد میں گزار دیے ہیں ملک کا میڈیا‘ سیاسی جماعتیں‘ دانش ور‘ شاعر‘ پارلیمنٹ اور سول سوسائٹی اور فوج سب آج کے دن اپنی اناء کے بت پاش پاش کرکے ضرور اس ملک کے لیے اور وطن عزیز کی سلامتی کے لیے سوچیں کہ ان سے وطن کے دفاع میں کوتاہی کہاں ہوئی‘ غلطیاں کہاں ہوئی ہیں‘ ہم قائد اعظم کے پاکستان کی حفاظت میں کیوں ناکام ہوئے‘ بانئی پاکستان نے کہا تھا کہ یہاں امن ہوگا‘ عدل ہوگا‘ انصاف ہوگا‘ اتحاد‘ یقین اور تنظیم ہوگی‘ ہر ایک شہری کے لیے مساوی معاشی مواقع ہوں گے‘ اسلام کے مطابق ہر شہری کو اس کے سیاسی‘ سماجی‘ معاشی اور انسانی حقوق ملیں گے‘ کیا واقعی ہم سے ان شعبوں میں کہیں نہ کہیں کوتاہی ہوئی کہ جس کے نتیجے میں سانحہ سقوط ڈھاکا ہوا‘ اس سانحہ کی بنیادی اینٹ کس نے رکھی؟ یہی وہ سوال ہے جس کاجواب آج تک نہیں مل سکا‘ ملک کی سیاسی جماعتوں کے بیشتر رہنماء آج بھی اس موضوع پر سچ سامنے لانے اور گفتگو کرنے پر تیار نہیں ہیں‘ اگر ہم سیاسی جماعتوں اور دیگر عوامل کی کوتاہیوں کی بجائے میڈیا کے کردار پر بحث کریں اور آئندہ کے لیے عہد کریں کہ ہم ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے تو شاید ہم ملک کے اندرونی اور بیرونی دفاع کے لیے ایک پرچم تلے منظم ہوجائیں‘ حادثہ کوئی ایک روز میں نہیں ہوتا لہٰذا پلٹن میدان میں جو ہوا اس کی آبیاری برسوں پہلے ہوئی تھی ہمیں اسی کا جائزہ لینا ہے کہ سقوط ڈھاکا کی آبیاری کس نے کی‘ یہ ملک کلمہ کی حکمرانی کے لیے بنا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ اسلام اور دین کی تعلیمات سے قوم میں اتحاد‘ یگانگت اور یک جہتی پیدا کیوں نہیں ہورہی‘ اس کی وجہ صرف اور صرف میں میں کی گردان ہے اور یہی میں ہی اصل میں سقوط ڈھاکا کی پہلی اینٹ ہے مجیب‘ بھٹو اور یحییٰ خان‘ اس’’ میں ‘‘کا شکار ہوئے اور ملک دولخت ہوگیا‘ امریکا‘ بھارت اور بیرونی سازشوں نے تو ملک میں صورت حال سے فائدہ اٹھایا‘ آج بھی ملک میں وہی میں میں کی گردان ہے ‘قومی وحدت‘ یکجہتی‘ یگانگت اور بھائی چارہ‘ برداشت کا کلچر نہیں ہے‘ ہر سیاسی جماعت کی اپنی دکان ہے‘ ذرائع ابلاغ کے ہر ادارے کی اپنی مارکیٹ ہے‘ میڈیا کی اخلاقی قدروں کا عالم یہ ہے کہ اشتہارات کی بھرمار ہے مگر پیغام کچھ نہیں‘ قبضہ گروپوں کی سرگرمیاں بریکنگ نیوز بن رہی ہیں‘ سیاسی جماعتیں ان کی سرپرست بنی ہوئی ہیں‘ پارلیمنٹ میں کسی رکن کو آج تک یہ جرائت نہیں ہوئی کہ وہ ان سے متعلق بات کرسکے‘ کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد جیسے بڑے منظم شہروں میں قبضہ گروپ دندنارہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے راولپنڈی اسلام آباد کے جنگلات کی اراضی ہائوسنگ سوسائٹیوں میں ڈھل رہی ہے اور زرعی اراضی بھی اسی مافیا کے قبضے میں چلی گئی ہے‘ قدرتی نالوں کو بھی بیچ دیا گیا ہے وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ یہ ملک میں دس کروڑ نوجوانوں کی مارکیٹ ہے‘ مگر یہ نوجوان بے روزگار ہیں‘ انہیں کوئی اخلاقی سمت دینے والا بھی نہیں ہے‘ پڑھے لکھے نوجوان اپنی تعلیمی قابلیت کے باعث اپنے متعلقہ شعبے میں کام کرنے کی بجائے پراپرٹی ڈیلرز بن رہے ہیں‘ اور ہم دعوی کر رہے ہیں کہ ہم ان نوجوانوں کے ذریعے ترقی کریں گے پوری دنیا صنعتوں اور زراعت میں انقلاب لارہی ہے‘ جدید ترین سافٹ ویئر ایجاد ہورہے ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہمارے وزیر اعظم نوجوانوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ انہیںمرغیاں دیں گے انڈے نکلیں گئے تو انہیں آمدنی ہوجائے گی اور یوں ملک ترقی کرے گا ہمارے ملک کی کل آبادی بائیس کروڑ کے لگ بھگ ہے جن میں یوتھ نوجوان نسل کی تعداد دس کروڑ بتائی جاتی ہے جنہیں اب نوکریاں نہیں بلکہ مرغیاں دی جارہی ہیں ہمارے ملک میں تین ایسے کام ہوئے ہیں جن کا بانئی پاکستان اور تحریک پاکستان کی قیادت نے تصور تک نہیں کیا ہوگا‘ پہلا اس ملک میں دھشت گردی‘ دوسرا علاقائی تعصب اور تیسرا پرائی جنگ میں خود کو جھونکنا ‘ وہ پاکستان جو ووٹ کی طاقت سے بنا تھا‘ ہمارے سیاست دانوں نے ووٹ کا وہ حشر نشر کیا ہے کہ پارلیمنٹ ہائوس میں ہونے والی دھینگا مشتیاں قوم کو جمہوری عمل سے بیزار کر رہی ہیں تعلیم‘ صحت‘ سماجی بہبود کے کام حکومت کی بجائے این جی اوز نے سنبھال لیے ہیں عدالتی نظام لاکھوں زیر التواء مقدمات کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے‘ سیاسی مقدمات اہمیت اختیار کرگئے ہیں اگر آج کے حالات‘ ملک کو درپیش مسائل اور اپنے بیرونی عوامل کے علاوہ خارجہ محاذ کا جائزہ لیا جائے تو صورت حال کچھ مختلف نظر نہیں آتی جو مسائل کل درپیش تھے وہی چیلنجز آج بھی سر اٹھائے ہمارے سامنے کھڑے ہیں سقوط ڈھاکا کے وقت اگر چہ میڈیا بہت محدود تھا لیکن جو تھا وہی اس وقت کے لحاظ سے بااثر بھی تھا حال اور مستقبل کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک لمحہ رک کر ماضی کے میڈیا اور سیاسی جماعتوں اور ناکامیوں کا جائزہ لیں تاکہ ملک کے محفوظ مستقبل کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی سیاسی قیادت‘ میڈیا اور پالیسی ساز آنے والے کل کے لیے بہتر فیصلے فیصلے کرسکیں سقوط ڈھاکا کے بہت سے پہلو ہیں لیکن میڈیا کا پہلو کل بھی اہم تھا اور آج بھی ہے سانحہ ڈھاکا کے سیاسی‘ فوجی غلطیاں اور کوتاہیاں اپنی جگہ‘ اس وقت کا میڈیا بھی کسی سے کم پیچھے نہیں تھا مولانا بھاشانی نے جب جلسہ کیا گھیرائو جلائو ان کی سیاست تھی لیکن ایک جلسے میں کہا کہ بہت ہوگیا بہتر ہے کہ اب ہم الگ ہوجائیں‘ اس جلسے کی رپورٹننگ اسی طرح ہوئی کہ اور سرخی یہ جمائی گئی کہ ’’مولانا بھاشانی نے دیا سلائی پھینک کر کلہاڑی اٹھالی ہے‘‘ آج اگر کوئی سقو ط ڈھاکا کے حالات اور اس وقت کے میڈیا کی زبان کامطالعہ کرنا چاہے تو ملک کی تمام بڑی لائبریریوں میں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں شائع ہونے والے اخبارات کے ریکارڈ دیکھے جاسکتے ہیں ’’ادھر تم اور ادھر ہم‘‘ بھی کسی سیاسی رہنماء کا نعرہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک اخبار کی سرخی تھی جو ایڈیٹر نے بھٹو کی تقریر کے جملے سے رنگ جمانے کے لیے اخذ کی تھی یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بڑی سرخی کے چکر نے ملک کی سیاسی قیادت کو ایک جگہ مل بیٹھ کر معاملہ حل کرنے کا موقع ہی نہیں دیا اور رہی سہی کسر گنگا نامی جہاز کے اغواء کاروں نے پوری کردی بھٹو صاحب جہاز کے اغوا کاروں سے ملنے لاہور پہنچ گئے کسی کو خبر نہیں تھی کہ وہ بلی جس کا نام بھارت ہے‘ اسی چھینکے کے ٹوٹنے کی منتظر تھی اس جہاز کا اغواء ہونا تھا کہ بھارت نے اعلان کردیا کہ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان فضائی سفر کے لیے فضائی راہ داری بند کردی گئی ہے جس سے دونوں بازو کٹ گئے اور مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان جانے کے لیے کولمبو سے پروازیں اڑی تو بھارت نے سری لنکاکا جینا حرام کردیا اور سمندری راستہ بند کرنے کے لیے وہ بنگال میں اپنے پیروکاروں کو اکساتا رہا مشرقی پاکستان میں حالات خراب کرنے کی ذمہ داری بی بی سی پر بھی ڈالی جاسکتی ہے کہ اس وقت باقاعدہ یہ کہہ دیا گیا تھا کہ بی بی سی نہ سنا جائے‘ اس کے نمائندے مارک ٹیلی کے بارے میں حکام کو یقین تھا کہ اپبی رپورٹنگ کرتے ہوئے مکتی باہنی کواشاروں اشاروں میں کارروائی کرنے کے لیے آسان ہدف کے بارے میں بھی آگاہ کرتے تھے یہ سب حقائق اور واقعات گواہ ہیں کہ پاکستان کوئی ایک دن میں نہیں ٹوٹ گیا‘ اس کے لیے برسوں منصوبہ بندی ہوئی‘ حکمران اور سیاست دان اپنی اپنی خود غرضی کے باعث اسے سمجھ نہیں سکے ۔