میں زندہ ہوں

415

 

آج سے کئی سال پہلے کی بات ہے مجھے نئے پیغامات دیکھنے کا شوق ہوا۔ نئے سال کے نئے پیغامات، نیا نیا شغل تھا۔ پوری دنیا میری انگلیوں پر اور میں کمپیوٹر اسکرین پر، کتنے بڑے حادثات، سونامی، زلزلے، طوفان، بیماریاں اور دیگر ہزارہا طرح کے واقعات، سوچا سب سے اچھا پیغام اس سالِ نو کا کیا ہوگا؟ دیکھنا چاہئے کیونکہ نیال سال پھر آنے والا ہے، آج پہلی دسمبر ہے اور پھر اگلے مہینے پہلی جنوری ہوگی اور زندگی کا ایک قیمتی سال کم ہو کر ہمیں موت سے اور قریب کردے گا۔ خیربہرحال پیغام سرچ کر رہی تھی “بہترین پیغام”پڑھ کر واقعی سوچتی رہ گئى۔ بہترین پیغام یہ ہے کہ “اتنے زیادہ مسایل کے باوجود میں زندہ ہوں ” یعنی اتنے زمین آسمانی آفات اور سونامی کے بعد بھی الحمد للہ میں زندہ ہوں۔ میں نے بھی صدق دل سے شکر ادا کیا کہ میں بھی زندہ ہوں گویا میرے لئے موقع ہے،نوٹس ہے آگاہی ہے آخرت کی تیاری کیلئے اس میں میرا کوئی کمال نہیں رب کی مہربانی ہے، آج مجھے پھر خیال آیا کہ آنے والے سال کیلئے میری کیا تیاری ہے اور میرے لئے کیا چیز اہم ہے جو مجھے دونوں جہاں میں کامیاب کردے۔ میری آنکھوں کے سامنے 31دسمبر2019؁ء کی وہ رات گزرنے لگی جب میں نماز پڑھ کر دعا مانگ رہی تھی کہ کل 2020کا نیا پہلا دن ہوگا بلکہ چند منٹوں میں ہونے ہی والا ہے مگر فائرنگ کی گھن گھرج آوازوں نے میری سوچ اور دعا کو منتشر کردیا۔ شیطان مجھ پر غالب آگیا۔ خیال آیا سال نو کی خوشیوں کے دھماکے ہیں پھر خود بخود ٹی وی کی طرف راغب ہوئی دیکھوں خبریں کیا ہیں؟ خبریں تو کیا ایک دم دھوم دھڑکا، ہر چینل جوش و خروش دکھانے، گانے بجانے اور چاندی چمکانے میں مصروف کشمیریوں کی بے بسی تو مت پوچھئے نشان عبرت بنی رہی۔ باقی پوری دنیا خوشیاں منا رہی تھی۔ عجیب دل کی حالت تھی مزہ نہیں آیا ٹی وی بند کر کے بھی میں دعا ئیں مانگتی سونے چلی گئی مگر نیند کہاں! دھماکے، پٹاخے، باجے، جلوس اور شور شرابا کافی دیر تک گوشِ گزار رہا اور وقفے وقفے سے گولیوں کے چلنے اور دھماکوں کی آوازیں آرہی تھیں پھر نہ جانے خیالات کہاں سے کہاں چلے گئے پچھلے سال گزر جانے والے یاد آنے لگے ابھی گنتی بھی پوری نہ ہوئی تھی کہ آنکھ کھل گئی اور صبح ہو گئی۔ وقت آگے بڑھتا گیا ایک نیا 2020 اور بالکل نیا نام لیکر آگے بڑھا کہ پھر دنیا کرونا کا شکار ہوگئی۔ یہ نظر نہ آنے والی چیز جو ہر کسی کو متاثر کر گئی کرونا بیماری تھی جس کے آگے دیگر انسانيت بے معنی ہو کر رہ گئی.. کشمیری سسکتے رہے۔ بے ضمیر بے حس لوگ رنگ بدلتے رہے۔ بارشیں طوفان، ٹڈی دل حملے سب اپنی جگہ نوٹس پر نوٹس دیتے گئے لیکن اس کرونا نوٹس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، نظر بند کر دیا۔ ہزاروں، لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے اور اب بھی بن رہے ہیں۔ چن چن کر انتخاب کا عمل آج بھی جاری ہے۔ ان گنت لوگ عزیز رشتہ دار اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ کچھ بیماری کے سبب اور کچھ قدرتی طور پر اور جو حادثات کا شکار ہوئے انکا تو شمار ہی نہیں۔
جب غور کیا حال آج تک کے حالات پر تو واقعی مقام شکر آيا .. آج بھی وہ پیغام کہ “میں زندہ ہوں ” سب سے اہم ترین پیغام ہے.. اگلے ہر لمحہ کے لئے اميد کى کرن دیتا ہے ۔