کورونا کی دوسری لہر اور بے روزگاری ـ ڈاکٹررضوان الحسن انصاری

487

کورونا وائرس کے پھیلائو کی دوسری لہر پاکستان، دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ فعال کیسز 50 ہزار ہوچکے ہیں۔ ٹیسٹ کے بعد مثبت آنے والوں کی شرح 10 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ اب تک تقریباً 9 ہزار افراد کورونا وائرس سے لڑتے ہوئے دارفانی سے رخصت ہوچکے ہیں جن میں نامور سیاستدان، جج، دانشور، ادیب اور صحافی، علمائے کرام او دوسری محترم شخصیات شامل ہیں۔ معاشی میدان میں جہاں کئی اشاریے مثبت سگنل دے رہے ہیں مثلاً جولائی تا نومبر ایکسپورٹس میں 2 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے بڑے پیمانے کی صنعتوں (LSM) کی پیداوار میں بہتری آئی ہے۔ خصوصاً کھانے پینے کی اشیاء، کھاد، آٹو موبائل اور سیمنٹ سیکٹر کی پیداوار میں واضح اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں حصص کی خریداری کا رجحان بڑھا ہے لیکن سب سے اہم چیلنجز جو حکومت کو درپیش ہیں وہ بڑھتی ہوئی بیروزگاری ہے اور اس میں زیادہ متاثر ہونے والے افراد وہ ہیں جو ڈیلی ویجز ورکرز ہیں یا نچلی سطح کی ملازمتوں میں شامل ہیں اور جو غیر ہنر مند افراد ہیں۔ کورونا کی وبا سے پہلے جب پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات چل رہے تھے اور جو تفصیلات و شرائط عوام کے سامنے آرہی تھیں اُن کو دیکھتے ہوئے ملک کے نمایاں ماہرین معیشت یہ پیشگوئی کررہے تھے کہ ان شرائط کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں اور کاروباری معاملات سست روی کا شکار ہوں گے اور تقریباً 18 سے 20 لاکھ افراد کی نوکریاں چلی جائیں گی۔ اس کے بعد کورونا کی وبا نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور حکومت نے اپریل تا جون مکمل لاک ڈائون کردیا اس کے بغیر مختلف صنعتی و کاروباری اور تجارتی شعبے بتدریج کھلتے چلے گئے اور معاشی سرگرمیاں بحال ہونے لگیں لیکن نومبر سے کورونا نے دوبارہ پائوں پھیلانا شروع کردیے اور اس کے نتیجے دوبارہ اسمارٹ لاک ڈائون کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جو ایک طرح کا جزوی لاک ڈائون ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے دوسرے ممالک خصوصاً جو پاکستانی برآمدات کی مارکیٹ ہیں وہ بری طرح متاثر ہیں اس سے ہماری برآمدات پر منفی اثر پڑے گا۔
ملک کے ممتاز معاشی تحقیقی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDS) نے کورونا وائرس کی وبا سے متاثر ہونے والے مختلف معاشی شعبوں پر اپنی ریسرچ جاری کی ہے۔ ایک رپورٹ بے روزگاری کے بارے میں تیار کی گئی ہے کہ کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے اثرات کے باعث معیشت کے مختلف شعبوں میں ایک کروڑ اسی لاکھ ملازمتوں کے ختم ہونے کا خدشہ ہے۔ اسی طرح بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی رپورٹ یہ ہے کہ سال 2020ء میں 2 لاکھ افراد ملازمتوں کے سلسلے میں ملک سے باہر گئے جب کہ گزشتہ سال 6 لاکھ 25 ہزار افراد باہر گئے تھے۔ کورونا کے باعث سعودی عرب میں پاکستانی افرادی قوت میں 41 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع ہوگئے ہیں اور وہ معاہدہ جو کورونا کی پہلی لہر کے بعد تعطل کا شکار تھا وہ بحال ہوسکتا ہے اس کے نتیجے میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور نجکاری کا عمل دوبارہ شروع ہوسکتا ہے۔ حال ہی میں نجکاری کی وجہ سے اسٹیل مل کے ساڑھے چار ہزار ملازمین بے روزگار ہوچکے ہیں۔ چناں چہ آئی ایم ایف سے ہاتھ ملانے کے بعد ہزاروں ملازمین کے بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے۔
حکومت کی نااہلی اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث ایل این جی کی درآمد میں مجرمانہ تاخیر کرکے ٹینڈر کیے گئے اس سے ایک تو مہنگے ریٹ کی وجہ سے ملکی خزانہ کو اربوں روپے کا نقصان ہوا دوسرے سردیوں کے موسم میں ملک گیس کی قلت کا شکار ہوسکتا ہے چناں چہ وہ تمام صنعتیں جن میں گیس کی ضرورت ہوتی ہے ان کی پیدوار متاثر ہوگی اور اس سے بے شمار ڈیلی ویجز ملازمین کو فارغ کردیا جائے گا۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں سب سے اہم کردار ملکی سرمایہ کاری کا ہے۔ اگر کاروبار شروع کرنا آسان ہو، منافع یقینی ہو، ملک میں استحکام اور معاشی و کاروباری پالیسیوں میں تسلسل ہو تو نجی شعبہ آگے آتا ہے اور اس سے لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ چناںچہ بے روزگاری میں کمی لانے کے لیے حکومت کو اُن تمام مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا جو ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل ہیں اور دوسرے سیاسی استحکام کے لیے اپوزیشن سے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے تا کہ سیاسی غیر یقینی ختم ہو اور امن و سکون و استحکام کی فضا پیدا ہو جس کی ملک کو ضرورت ہے۔