فرانس میں مساجد کی سخت نگرانی بندش کی دھمکی

307

پیرس/ جنیوا(انٹرنیشنل ڈیسک) فرانس کو مسلمانوں کے لیے ماضی کا اسپین بنانے کی حکومتی کوششیں مزید تیز کردی گئی ہیں۔ فرانسیسی وزیر داخلہ جیرالڈ دارماناں نے اعلان کیا ہے کہ درجنوں مساجد کی کڑی نگرانی کی جائے گی۔ وزیر داخلہ نے ہرزہ سرائی کی ہے کہ جن مساجد پر انتہا پسندانہ نظریات کو فروغ دینے کا شبہہ ہے، انہیں سخت نگرانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وزیر داخلہ نے مقامی آر ٹی ایل ریڈیو اسٹیشن پر گفتگو کے دوران کہا کہ تفتیش کے دوران 76مساجد کو انتہا پسندانہ نظریات کے فروغ میں ملوث پایا گیا ہے اور انہیں بند بھی کیا جا سکتا ہے۔ وزیر داخلہ نے یہ نہیں بتایا کہ کون کون سی مساجد بند کر دی جائیں گی یا ان کی کڑی نگرانی کی جائے گی۔ البتہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 16 مساجد دارالحکومت پیرس میں ہیں، جب کہ دیگر 60 ملک بھر کے دوسرے شہروں اور قصبوں میں ہیں۔ وزیر داخلہ کا یہ بھی کہنا ہیکہ ان مساجد پر شبہہ ہے کہ ان سے وابستہ افراد خود کو فرانسیسی معاشرے سے دور رکھنے میں ملوث ہیں، اپنے بچوں کو خفیہ اسلامی اسکولوں میں بھیجتے ہیں اور بیٹیوں کو پردے پر مجبور کرتے ہیں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے آزاد ماہرین پر مشتمل گروپ نے فرانس پر زوردیا ہے کہ وہ اپنے مجوزہ متنازع سیکورٹی قانون پر نظرثانی کرے۔ گروپ نے کہا ہے کہ فرانس کا یہ قانون عالمی انسانی حقوق سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ اقوام متحدہ کے 5 خصوصی نمایندوں نے فرانس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے مجوزہ قانون پر جامع انداز میں نظرثانی کرے اور اسے انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق بنائے۔ فرانس کے اس مجوزہ سیکورٹی بل کی دفعہ 22 کے تحت سیکورٹی مقاصد کے لیے شہریوں کی ڈرون کے ذریعے نگرانی کی جاسکے گی، جب کہ دفعہ 24کے تحت ڈیوٹی پر موجود پولیس اہل کاروں کی تصاویر کو انہیں جسمانی اور نفسیاتی ضرر پہنچانے کی نیت سے شائع کرنا فوجداری جرم ہوگا۔ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کی جانب سے فرانسیسی حکومت پر اس مجوزہ قانون کی بنا پر کڑی نکتہ چینی کی جارہی ہے اور اس سے اس پر نظرثانی یا اسے سرے سے ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔