افکار سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ

207

انبیاء کی بعثت
صِرف چار حالتیں ایسی ہیں جن میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں:
اوّل: یہ کہ کسی خاص قوم میں نبی بھیجنے کی ضرورت اِس لیے ہوکہ اس میں پہلے کبھی نبی نہ آیا تھا اور کسی دوسری میں آئے ہوئے نبی کا پیغام بھی اْس تک نہ پہنچ سکتا تھا۔
دوم: یہ کہ نبی بھیجنے کی ضرورت اِس وجہ سے ہوکہ پچھلے نبی کی تعلیم بھْلادی گئی ہو، یا اْس میں تحریف ہوگئی ہو اور اْس کے نقشِ قدم کی پیروی کرنا ممکن نہ رہا ہو۔
سوم: یہ کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کے ذریعے مکمل تعلیم وہدایت، لوگوں کو نہ ملی ہو اور تکمیلِ دین کے لیے مزید انبیاء کی ضرورت ہو۔
چہارم: یہ کہ ایک نبی کے ساتھ اْس کی مدد کے لیے ایک اور نبی کی حاجت ہو۔
اب یہ ظاہر ہے کہ اِن میں سے کوئی ضرورت بھی نبیؐ کے بعد باقی نہیں رہی ہے۔
قرآن خود کہہ رہا ہے کہ حضور کو تمام دنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا گیا ہے اور دنیا کی تمدنی تاریخ بتارہی ہے کہ آپ کی بعثت کے وقت سے مسلسل ایسے حالات موجود رہے ہیں کہ آپ کی دعوت، سب قوموں کو پہنچ سکتی تھی اور ہر وقت پہنچ سکتی ہے۔ اس کے بعد الگ الگ قوموں میں انبیاء کے آنے کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی۔
قرآن اس پر بھی گواہ ہے اور اس کے ساتھ حدیث وسیرت کا پورا ذخیرہ، اِس امر کی شہادَت دے رہاہے کہ نبیؐ کی لائی ہوئی تعلیم، بالکل اپنی صحیح صورت میں محفوظ ہے۔ اِس میں مسخ و تحریف کا کوئی عمل نہیں ہوا ہے۔ جو کتاب آپ لائے تھے، اْس میں ایک لفظ کی بھی کمی و بیشی آج تک نہیں ہوئی، نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔جو ہدایت آپ نے قول و عمل سے دی، اْس کے تمام آثار آج بھی اِس طرح ہمیں مِل جاتے ہیں کہ گویا ہم آپ کے زمانے میں موجود ہیں۔ اِس لیے دوسری ضرورت بھی ختم ہوگئی۔
پھر قرآن مجید، یہ بات بھی صاف صاف کہتا ہے کہ حضور کے ذریعے سے دین کی تکمیل کردی گئی۔ لہٰذا تکمیلِ دین کے لیے بھی اَب کوئی نبی، درکار نہیں رہا۔
اب رَہ جاتی ہے چوتھی ضرورت، تو اگر اس کے لیے کوئی نبی درکار ہوتا تو وہ حضور کے زمانے میں آپ کے ساتھ مقرر کیا جاتا۔ ظاہر ہے کہ جب وہ مقرر نہیں کیا گیا تو یہ وجہ بھی ساقط ہوگئی۔ (تفہیم القرآن، ضمیمہ سورہ احزاب)
٭…٭…٭