اسرائیلی درندگی‘ خواتین فلسطینی قیدیوں سے بچے چھین لیے

510

اسرائیلی حکام نے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینی خواتین قیدیوں سے ان کے بچے چھین لیے۔ فلسطینی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل 5ہزار سے زائد فلسطینیوں میں 40سے زائد خواتین بھی ہیں۔ ان میں سے 15خواتین چھوٹے چھوٹے بچوں کی مائیں ہیں ، جنہیں قید کرکے ان کے بچوں کو دور کردیا گیا ہے۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیلوں کے باوجود صہیونی ریاست نے فلسطینی مائوں کو بے رحمی کے ساتھ قید کررکھا ہے ۔ صہیونی انتظامیہ کا مقصد صرف اسیر خواتین کو اذیت دینا نہیں بلکہ ان کے بچوں اور خاندان کو ذہنی اور نفسیاتی تکلیف میں مبتلا رکھنا ہے۔ 15خواتین میں سے 3ہشارون جیل میں ہیں۔ وہاں 52سالہ نوال سعدی 5بچوں کی ماں ہیں۔ 38سالہ انتصار صیاد کا تعلق مقبوضہ بیت المقدس سے ہے اور وہ 4بچوں کی ماں ہیں، جب کہ 32سالہ رنا ابو کویک رام اللہ سے ہیں اور ان کے 4بچے ہیں۔ قید وبند کے ساتھ فلسطینی مائوںکو اپنے بچوں سے ملنے کی اجازت تک نہیں دی جاتی۔ ان میں سے بعض نے صہیونی زندانوں میں قید کے دوران بچوں کو جنم دیا اور بعد ازاں ظالم حکام نے ان کے لخت جگر ان سے دور کردیے۔
فلسطینی ذرائع ابلاغ کے مطابق صہیونی حکام کی طرف سے فلسطینی مائوں کو علاج کی بنیادی سہولیات تک نہیں دی جاتیں اور جن مائوںکے ساتھ ان کے بچے موجود ہیں ، ان کے لیے دودھ اور خوراک کا بندوبست نہیں کیا جاتا۔ حال ہی میں صہیونی زندانوں سے رہائی پانے والی 41سالہ ہیفا ابو صبیح نے بتایا کہ قیدخانے میں ان کے ساتھ ناقابل بیان برتائو کیا جاتا رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی زندانوں میں قید میں یکے بعد دیگر عذاب جھیلتی رہیں۔ صہیونی جیلوں کی انتظامیہ انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے ہر طرح کی سفارشات قبول کرنے سے انکار کردیتی ہے اور خواتین، بچوں اور مائوں کو ان کی بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے ۔ ہیفا نے اپنی رہائی کے بعد بتایا کہ انہیں مئی 2015ء میں گرفتار کیا گیا اور مسلسل 16 ماہ تک زیرحراست رکھا گیا۔ وہ ایک اسکول کی پرنسپل تھیں اور تعلیم دشمن صہیونی حکومت نے انہیں نشانہ بنایا۔ انہوں نے قید کے دوران دیگر 26خواتین قیدیوں کی نمایندگی کی اور ان کے علاج اور خوراک کے معاملے میں صہیونی جیلروں کے ساتھ مذاکرات کیے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ صہیونی جیلر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قیدیوں کو ان کے حقوق سے محروم کرتے ہیں اور نفسیاتی اذیت کے حربے کے طور پر بچے ان سے چھین لیتے ہیں۔