اپنا مستقبل خراب مت کریں!

550

سوال کیا گیا کہ آپ بچوں کے ادب کے ماضی، حال اور مستقبل سے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ہم اپنا ایک مقالہ تیار تو کر ہی رہے ہیں۔ لیکن یہ سوال تفصیل کا متقاضی ہے۔ بچوں کا ادب ماضی میں کیا تھا اور اب کیا ہے؟ کیا اس دوران ترقی ہوئی یا تنزلی آئی؟ اس کا جواب صرف اس وقت دیا جاسکتا ہے، جب آپ بچوں کے ماضی کے ادب کو بھی جانتے ہوں اور حال پر بھی نظر ہو۔ اگر صرف سرسری مطالعے اور ماضی سے جڑی روایات کے زیر اثر آپ اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کریں گے تو موضوع سے صحیح سے انصاف نہیں کرسکیں گے۔
آپ ذرا پیچھے کی طرف ایک نظر دوڑائیے کہ جب روئے زمین پر تمدن اپنے قدم جمارہی تھی۔ یہ فطری سی بات ہے کہ انسان جیسے جیسے متمدن ہوتا گیا اس نے نہ صرف خود کو بہتر بنانے کی کوشش کی بلکہ اپنی آنے والی نسل کی فکری بقا کی بھی کوششیں شروع کردیں، بودوباش سے لے کر ہر زمانے کے مروجہ طور طریقوں اور اصولوں کے مطابق انسانی زندگی کو اعلیٰ اخلاقی قدروں سے روشناس کرانے کی اپنی سی کوشش کرتے رہے۔ یقینا زمین کا ایک سرسبز قطعہ اور دریا وسمندر کو تسخیر کرنے کے ارادے میں انسان حیوانوں سا برتائو کرنے لگا لیکن اس کے لیے بھی ضروری تھا کہ وہ دوسروں سے زیادہ جاننے والا ہو۔ زیادہ جان کر منصوبہ بندی کرکے دنیا کو مٹھی میں کرنے کی جنگ آج سے نہیں ہے بلکہ صدیوں سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔ لیکن اس جاننے کے عمل نے تعلیم کا راستہ کھولا۔ اس تعلیم سے انسان نے آہستہ آہستہ وہ کارہائے نمایاں سر انجام دیے کہ عقل دنگ رہ جائے، قوموں نے اپنی آنے والی نسلوں کو اس تعلیم سے بہرہ ور فرمایا اور حقیقت یہ ہے کہ ہر قوم اور زبان کی تاریخ میں تعلیم کو نظر انداز کیا جاسکا ہے اور نہ کیا جاسکتا ہے۔
کسی بھی قسم کی تعلیم ہو، اس میں زبان کا تعلق اہمیت اختیار کرتا گیا اور زبان تو شوق، ولولے اور ضرورت کی وجہ سے ترقی پاتی ہے اور یہ شوق اور ولولہ بھلا بچوں سے زیادہ کہاں پایا جاسکتا ہے۔ اسی شوق اور ولولے نے پوری دنیا کی کایا پلٹ کر رکھ دی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا علوم کے لحاظ سے مختلف درجوں میں تقسیم ہوگئی اور اب مکمل انسانی اعضا کا بھی کوئی ایک معالج نہیں ہے بلکہ سیکڑوں علوم کی دریافت کے بعد، ناک، کان، جلد، دل، جگر، گردوں، ٹخنے، بالوں وغیرہ کے مختلف ماہر معالج پائے جاتے ہیں۔
اسی طرح زبان وادب کا معاملہ ہے، جیسے جیسے انسان کی زندگی میں سائنس کا عمل دخل بڑھتا گیا اسی طرح زبان وادب پر بھی اس کا اثر پڑا۔ اگر ہم اُردو زبان کی بات کریں تو بہت کم عرصے میں سائنسی بنیادوں پر تنقید نے اُردو کو پورے برصغیر کی سب سے بڑی زبان بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یاد رہے کہ برصغیر مغل دور ہی میں فارسی سے اُردو کی جانب اپنا سفر شروع کرچکا تھا۔
اُردو زبان میں ابتدا میں جو بھی کام ہوا، وہ اپنی افادیت کے لحاظ سے اتنا جان دار رہا کہ برسوں اُس کے اثرات محسوس کیے گئے۔ ہم سر ِ دست بچوں کے ادب کے حوالے سے مختصراً جائزہ لیں اور ابتدا ماضی سے کریں تو ہمیں ایک خوشگوار حیرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ تمام بڑے نام جو بڑوںکے ادب میں معروف ہیں وہ بچوں کے اَدب میں بھی نظر آتے ہیں۔ بچوں کا سب سے پہلا اُردو کا میگزین ’بچوں کا اخبار‘ منشی محبوب عالم نے نکالا۔ آپ اس میگزین کا مطالعہ کریں تو حیرت زدہ رہ جائیں، عمدہ اور اعلیٰ معیار کے اسکیچز کے ساتھ مختلف سرگرمیوں، مضامین اور کہانیوں پر مشتمل اس میگزین نے ایک ایسی شروعات کی جس نے بچوں کے ادب کو روز افزوں ترقی دی۔ یہ میگزین بہت مشکل سے دستیاب ہے۔ اس کے مختلف شمارے مختلف اہل علم حضرات کے نوادرات میں شامل ہیں۔ اس کی ایک جلد میں نے معین الدین عقیل صاحب سے حاصل کی تھی، اور اس کے بغور مطالعے نے کئی نئی باتوں سے روشناس کرایا، بعد ازاں اس کے تتبع میں پھول، غنچہ، سعید، تعلیم وتربیت جیسے رسائل نے بچوں کے ادب کو آگے بڑھایا۔ قیام پاکستان کے بعد جنگ کے شفیع عقیل کا ’بھائی جان‘، احمد فوڈز کا ’آنکھ مچولی‘ ، حکیم سعید کے ’نونہال‘ اور
اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ’ماہنامہ ساتھی‘ نے بچوں کے ادب میں بیش بہا اضافہ کیا۔
کسی بھی چیز کی قدر کا تعین موجودہ حال ٹھیک طرح سے نہیں کرپاتا، جب وہ شے ماضی ہوجاتی ہے تو اس کی قدر کا خوب اندازہ ہوپاتا ہے، یہ انسانی مزاج ہے۔ آج بھی بچوں کے ادب میں عمدہ قسم کی کہانیاں لکھی جارہی ہے۔ خوب صورت تصاویر کے ساتھ رسائل نکل رہے ہیں لیکن اس حوالے سے کسی بھی ادبی نقاد سے پوچھیں تو فوراً جواب آئے گا کہ میاں اب بچوں کے ادب میں وہ پہلی سی بات نہیں۔ لیکن جب ہم آج کے ادیبوں میں بہترین لکھنے والے قلمکاروں کو دیکھیں تو ایک خوش گوار حیرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عموماً ہر فرد ماضی کا اسیر رہتا ہے۔ اس لیے موجودہ کے مقابلے میں اسے ماضی کے لکھنے والے زیادہ بڑے قلمکار لگتے ہیں۔
بچوں کا ادب اب تبدیلی کی پٹڑی پر چڑھ چکا ہے۔ اب کہانی کی صنف میں نت نئے تجربات ہورہے ہیں۔ رسائل کا مزاج بدل رہا ہے۔ کتابیں اب آڈیو یا ویڈیو کی پیشکش کے ساتھ بھی آرہی ہیں۔ اچھی تصاویر کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا بچوں کے ادب پر بھی بہت زیادہ اثر انداز ہورہا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کے ادب پر تنقیدی کام زیادہ سے زیادہ ہونا چاہیے تاکہ اس شعبے کی خامیوں کو دور کرکے اس میں مزید بہتری لائی جائے کیوں کہ اس ادب کا تعلق ہمارے بچوں سے ہے۔ ہمارے یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں اور اپنے مستقبل کو خراب کرنا بہرحال کسی عقل مند آدمی کا کام نہیں۔