نبی کریم ﷺ کی سيرت،عملى نمونہ

207

رحمت العالمین خیر البشر کی سیرت کا احاطہ کرنا ” سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔
آپ ﷺفخر موجودات، فخر زماں و مکاں اور سرور کونین کی آمدپر اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔اللہ تعالی کاانسانیت پر کرم ہےکہ وہّ ظلمت کو روشنی میں بدلنے کے لیے آئے ۔ انسانیت جو سسک رہی تھی،اس کو مسکرانا سکھایا ۔جوکٹ رہے تھے، ان کو جوڑا ۔سچائى اور ایمانداری کو لوگوں کا شیوہ بنایا ۔ آپ ﷺ نےانسانیت کو روحانی طاقت اورایمان کی طاقت سے نوازا اور اس ایمان کی روشنی کو پھیلانے کے لیےنبی ﷺ کو اخلاقیات کی آبیاری کا منبع بنا کر ہمارا راہ نما بناديا ۔
ربیع الاول کے باسعادت مہینہ میں اس دنیا پر رحم و کرم فرمایا ۔مگر آپ کے ملنے کی خوشی کے ساتھ ساتھ يہ ماہ جدائى کا عظيم غم بھى ديتا ہے ۔
12 ربیع الاول یوم وفات جس دن خاتم النبین کے ساتھ وحی کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا ۔
آپ کی جدائى صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ساتھ روئے زمين کے ذرے ذرے کے لیے باعث رنج والم تھی۔
ہمارے پیارے رسول ﷺ نے اپنی زندگی سادہ خاص ہوتے ہوئے ۓعام انسانوں کی طرح گزاری ۔مگر انسانیت واخلاقیات کے بلند مرتبے کو چھوتے ہوئے ایک عظیم الشان انقلاب پیدا کیا ۔محض 23 برس کى قليل مدت میں ایک نظام زندگى و صالح معاشرہ تشکیل کر کے دکھايا ،جس کی بنیاد تقوی تھی ۔آپ ﷺ عظیم داعی کا معیار زندگی فقیرانہ اور رضا کارانہ تھا۔ حضرت عائشہ رضی تعالی عنہا نبی ﷺکی زندگی کا رخ بیان کرتی ہیں ۔
”میں حضور ﷺ کوفاقے کی حالت میں دیکھتی تو رو پڑتی۔ اضطراب سے عرض کرتی ”میری جان آپ ﷺ پر قربان خدا کے لیے دنیا میں سے اتنا تو قبول فرما لیجیے جو جسمانی قوت کو قائم رکھنے کے لیےکافی ہو ۔“
جواب میں آپ ﷺ فرماتے .
”عائشہ رضی تعالی عنہا مجھے دنیا سے کیا ۭ
کام میرے بھائى اولو العزم رسول تو اس سے بھی زیادہ سخت حالت پر صبر کیا کرتے تھے اور وہ اسی چال پر چلے اور خدا کے سامنے گئے، خدا نے ان کو نوازا اگر میں آسودگی کی زندگی بسر کروں گا تو مجھے یہ بھی شرم آتی ہےکہ کل میں ان سے کم رہ جائوں ۔ ۔۔۔۔ دیکھو جو چیز مجھے پیاری ہےوہ یہی ہےکہ میں اپنے بھائیوں سے جا ملوں “۔
حضور ﷺکے گھر میں مہینوں چولہانہ جلتا صرف کھجور پانی اور ستو پر گزار ہ ہوتا ۔
قیصر وکسریٰ کے دورمیں يتیمانہ زندگى نہايت صبر و شکر سے گزارى۔غار حرا میں شب و روز کے غور فکر کے بعد اپنے رب کو تلاش کیا اور ہر حال میں شکر ادا کیا ۔
اس کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے میں لگ گئے ۔مشکلات و مصائب کا مردانہ وار سامنا کیا ۔اللہ تعالی کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوئے اس لیےہر لمحہ اپنے ساتھ پایا صبر کیا،عفو درگزر سے کام لیا ۔
طائف میں دین اسلام کی دعوت کے دوران جب وہاں کے لوگوں نے پتھر مار کر لہولہان کرديا۔حضرت جبرائیل تشريف لائے اور کہا کہ اگر آپ کہیں تو طائف کے لوگوں کو ان دو پہاڑوں کے درمیان دبا کر مار دوں؟”
آپ ﷺ منع فرماتے ہیں کہ شايد ان میں سے بعد میں کوئى اسلام قبول کر لے اور دین اسلام کے لیے کام کرے۔
حضور ﷺ پہلی اسلامی ریاست کے سر براہ ليکن .. گھر میں کھجور کی چٹائى، دیوار پر بکری کى کھال لٹک رہى ہے او جسم پر چٹائى کے نشانات واضح ہوتے ۔گھر کھجورکے درخت کے ستون اور گھاس پھوس کی چھت، دروازوں کے کواڑ نہ تھے ۔آپ ﷺ نے بعد از وفات جو اثاثہ چھوڑا ان میں کچھ ہتھیار زرہ، کمانیں،تیر اور ڈھال جہاد فی سبیل الہ کے سامان کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی فر ماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کےترکہ میں نہ دینار تھے،نہ درہم نہ بکری،نہ اونٹ۔
یہ تھی نبی ﷺکی حيات مبارکہ ..مگر ان کی زندگی کا سرمایہ ان کی رضائے الہٰی کے لیے تگ و دو اور اس کا حصول اس کے لیے تیاری تھی۔
آپ ﷺ بادشاہوں کے بادشاہ،سرداروں کے سردار جن کی حکومت میلوں تک پھیلی ہوئى تھی مگر پھر بھى دنیا کو سرائے سے زیادہ نہ جانا۔زندگى کے لوازمات و معیارات کو اپنے زیر پشت رکھا ۔مادیت پرستی، دنیا کی چاہت و محبت فساد کی جڑ اور قوموں کی تباہی و بربادی کا سبب بنتے ہيں مگر بے لوثی اور بے نیازی انبیاء ّ کا وصف ہے ایمان کی روشنی سے ظاہر و باطن کو جلا بخشتے رہنا،ایک چراغ سے ديگر چراغ کو روشن کرنا ہے
آپ ﷺ کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ اور قرآن مکمل ضابطہ حیات ہے _رہتی دنیا تک آپ ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنا،ان کا زندہ کرنا ہى مومن کا مقصد حیات ہے ۔