آبگینہ

350

 

صباحت منظور

میں تتلی ہوں۔۔۔۔میں تتلی ہوں
اڑتی پھروں میں ہاتھ نہ آؤں
پورے گھر میں ردا شور مچاتی، گنگناتی پھر رہی تھی۔
بڑے بابا جو اس کے لیے ایک تتلی جیسا لباس لے آئے۔
خولہ کو اللہ نےصرف ایک ہی بیٹی دی تھی۔ان کا مشترکہ خاندانی نظام تھا-تین بھائیوں کے گھر ایک ساتھ بنے ہوئے تھے درمیان میں اندر ہی اندر راستے تھے لیکن باہر سے علیحدہ تھے۔باقی بھائیوں کی اولاد میں صرف لڑکے تھے۔
جب ردا پیدا ہوئى تو گویا سب کی دلی مراد پوری ہوگئى۔ ردا کی صورت میں ان سب کو بیٹی مل گئی اور ردا کو بہت سے بھائى۔وہ لڑکوں کے درمیان رہ کر ہی بڑی ہو رہی تھی۔ہر وقت کبھی اُس تایا کے گھر کبھی اِس تایا کے گھرساس سسر خولہ کے ساتھ ہی تھے تو زیادہ تر رونق اس کے گھر میں ہی رہتى اور وقت بے وقت بلا روک ٹوک آنا جانا بھى۔خولہ جس ماحول سے آئی تھی وہ اس گھر کے ماحول سے قطعی مختلف تھا۔اس لیے وہ اکثر اُلجھ سی جاتی۔ردا اب بڑی ہو رہی تھی لیکن رنگ ڈھنگ بالکل بچوں والے ہی تھے۔جب کبھى وہ اس کو نامناسب لباس پہننے پر ٹوکتى یا دوپٹہ اوڑھنے کو کہتی تو پورا گھر اس کے پیچھے پڑ جاتا-“ہائے ہائے ہائے بچی کو ملانی بناؤں گی کیا” “ابھی تو یہ بچی ہے،بڑے ہو کر خود ہی سیکھ جائے گی۔۔۔ ”
“زیادہ نہ پیچھے پڑھا کرو ہماری گڑیا کے۔۔۔۔”
یوں اس گھر میں خولہ کی دال بڑوں کے سامنے نہ گلتی اور وہ خاموش ہوجاتى۔
پلک جھپکتے وقت گزر رہا تھا- سب بچے آگے پيچھے اب جوان ہو رہے تھے۔ گھر کا ماحول اب تک ویسے ہی تھا،کھلا بنا کسى روک ٹوک کے۔
لاؤنج میں بڑا سا ایل سی ڈی بھی ہر وقت ہر وقت کی نحوست تھی، جس میں صرف” خبریں” سننے والے بھی کسی نہ کسی بے حیا منظر سے محظوظ ہو سکتے تھے یا شرمندہ، خولہ کو ٹى وى سے خاص لگاؤ ہی نہ تھا اس لیے اس کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ ٹی وی بڑھتی ہوئی عمر کے بچوں کی تربیت پر کس طرح اثر کرتا ہے۔
بچوں کی تربیت پر دو چیزیں اثر انداز ہوتی ہیں ، پہلا خاندان دوسرا ماحول۔يہاں بھى معاملہ کچھ مختلف نہ تھا۔خاندان تو خوب سے خوب تر کی تلاش میں اپنی اقدار و روایت کا باغی ہو چکا تھا-خولہ کو ردا کے ساتھ کم ہی وقت ملتا- آج اس کے میاں رات کو لیٹ ہوگئے،فیکٹری میں کام زیادہ تھا ۔ خولہ نے ردا کو اپنے پاس بلا لیا-کافى عرصے بعد دونوں کو ساتھ وقت گزارنے کوملا تھا۔
“میری بیٹی تو واقعى بڑی ہو گئی ہے،قد میں پوری ماں جتنی۔۔۔۔”خولہ لاڈ سے کہہ رہى تھى
۔”کیا بنو گی تم بڑی ہو کر ردا۔۔ ؟”
“ماڈل گرل۔۔۔۔۔”
“ماڈل گرل ماما”
ردا کا غير متوقع جواب پا کر وہ لمحے کو ٹھٹکى
“ايسے نہیں کہتے بيٹا..”
“ماما فراز بھائی تو کہتے ہیں کہ تم اتنی خوبصورت ہو۔۔۔۔تو تم ماڈل گرل ہی بننا۔۔۔۔خوب پیسہ بھی آئے گا اور شہرت بھی۔۔۔۔”
“اور آپ نے سنا نہیں کہ اب خوبصورتی سے کیا شرمانا؟؟”،وہ مسلسل کہتى جارہى تھى
“فراز بھائی کے دوست کا اپنا پروڈکشن ہاؤس ہے۔ انہوں نے اس سے بات کی ہے۔۔وہ لوگ مجھے منتخب کر لیں گے۔۔۔۔۔”
خولہ کو سماعت پر يقين نہ آرہا تھا۔وہ ناجانے کب اتنى لاپروا ہوگئى
“اور ماما ایک بار ميڈيا میں آگئى ناں، تو مزے ہو جائیں گے۔۔۔آپ کے لیے میں سارا دن کا ملازم رکھ لوں گی تاکہ آپ کو اتنے زیادہ کام نہ کرنے پڑیں۔.خوب نئے نئے کپڑے بناؤں گی اور آپ کا اچھا سا ہیئرکٹ کروا دونگى۔پھر ديکھیے گا آپ بھی بڑی امی اور چھوٹی چاچی کی طرح بہت پیاری لگیں گی۔”
ردا بغير توقف کے بولتى چلے جارہى تھى،اس کى آنکھوں کى چمک تو خولہ نے آج ديکھى تھى۔
“آپ کو تو پتا ہی نہیں کہ جب ٹی وی پر کسی کو غریب یا ماسی دکھانا ہوتا ہے تو اس کا سر ڈھکا ہوا دکھاتے ہیں اور جب کسی کو ماڈرن دکھانا ہوتا ہے تو کھلے بال بغیر آستین کے کپڑے۔۔۔فل میک اپ۔۔۔میڈم جی کے۔۔۔”ردا کى شوخ مسکراہٹ پھيل گئى وہ ناجانے کیا کیا کہتی رہی مگر خولہ کے سر پر ایک کے بعد ایک بم پھوٹ رہا تھا۔۔۔اس نے آج ہی اپنے میاں سے بات کرنے کا سوچا کہ اس سے پہلے پانی سر سے اونچا ہو جائے۔
لیکن اس رات اس کے میاں کو بہت ہی دیر ہو گئی،واقعی بہت دیر…..
ردا کی آنکھ کچھ تکلیف سے کھلی۔۔۔جسم پر چیونٹیاں سی رینگ رہی تھیں۔پتا نہيں عصر کا وقت تھا یا صبح تھى،اس کا ذہن تاریکی میں تھا۔۔۔۔ہاں وہ ماما کو بتائے بغیر فراز بھائی کے ساتھ ان کے دوست کو آڈیشن دینے نکلی تھی۔۔۔۔کسی حسین ۔۔رنگ برنگی تتلی کی طرح۔۔۔اڑنے کو تیار۔۔اس کو اندازہ نہ تھا کہ اگر کوئی تتلی کو چھو لے تو اس کے سارے رنگ اتر جاتے ہیں۔
“ہائے اللہ۔۔۔ہائے میرے اللہ۔۔۔”ردا کراہنے لگى
اس کے سر میں بہت درد ہو رہا تھا۔۔اس نے ہمت کر کے ہاتھ لگایا تو خون رس رہا تھا۔۔۔اس کو بہت رونا آیا لیکن یہاں اس کی فریاد سننے والا دور دور تک کوئی بھی نہیں تھا۔
اس کو ياد آيا کہ فراز بھائى نے راستےمیں اس کو جوس پلایا تھا۔۔۔اس کی پسند کا فلیور ۔۔۔۔بچپن سے ساتھ تھے، اس کی ہر خواہش جانتے تھے۔۔ لیکن ردا نہیں جانتی تھی کہ بھائى صرف سگا بھائی ہی ہوتا ہے۔وہ بہانے سے اس کو لے کر چلے گئے۔۔۔۔جوس کے بعد ردا کو نیند کے جھونکے آئے تو اس نے سیٹ سے ٹیک لگا لی۔جب اس کی آنکھ کھلی تو اس کے کان میں آواز ٹکرائى
“بڑی تگڑی پارٹی پکڑی ہے۔۔۔۔فراز یہ کام جیسے ہی ہوگا تو ہم فورا ًملک سے باہر چلے جائیں گے اور کسی کو ذرا بھی شک نہیں ہوگا۔
گاڑی فل اسپیڈ سے ہائی وے پردوڑ رہی تھی۔۔ان کی باتیں سن کر اگر وہ مری ہوئی بھی ہوتی تو بھی کھڑی ہو جاتی۔ردا کے بے آواز آنسو بہنےلگے۔۔۔اس نے آہستہ سے لاک کھولا اور گاڑی سے باہر چھلانگ لگا دی۔سنسان راستہ تھا وہ کتنی ہی دور لڑھکتی چلی گئی۔
پولیس پارٹی کو گشت کے دوران ایک نیم مردہ بچی پڑی ہوئی ملی جس کو فورا اسپتال پہنچا دیا گیا ۔سب انسپکٹرحبیب اللہ گشت پر تھے اور خوف خدا رکھنے والے تھے تو ردا خیر و عافیت کے ساتھ ہسپتال پہنچ گئی یا شاید ردا کی قسمت اچھی تھی ورنہ تو اس راستے میں ہی بھی ڈھیروں خطرے تھے زندہ کو مردہ بنتے دیر نہیں لگتی اور میڈیا کے ہاتھوں میں ایک چٹخارے دار اسٹوری آجاتی۔
سب بہت گھبرائے ہوئے تھے خولہ کو اپنی بچی زندہ ملنے کی امید ہی ختم ہو گئی تھی۔