چین مخالف اتحاد فعال کرنے کی بھارتی کوشش

263

 

نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارت نے چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی کے بعد بیجنگ مخالف چہار فریقی اتحاد کو فعال کرنے کی کوشش تیز کردی۔ خبررساں اداروں کے مطابق بھارت نے امریکا، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ فوجی اور تجارتی تعاون کو بڑھانے کی کوشش شروع کردی ہے، تاکہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے 4ممالک پر مشتمل ایک پلیٹ فارم ’کواڈ ریلیٹرل سکیورٹی ڈائیلاگ ‘بھی قائم کیا گیا ہے، تاہم شراکت داری کے منصوبے کو جاپان اور امریکامیں ممکنہ اندرونی سیاسی تبدیلیوں کے باعث خطرات لاحق ہیں۔ ستمبر کے آغاز میں امریکی نائب وزیرخارجہ اسٹیفن بیگن نے کہا تھا کہ اتحاد میں شامل ممالک کی کوشش ہے کہ اکتوبر کے آخر تک نئی دہلی میں اجلاس منعقد کیا جائے تا کہ مشترکہ مفادات کی بنیادوں پر اتحاد کو رسمی شکل دی جا سکے۔ خبررساں اداروں کے مطابق رواں سال کے آغاز میں آسٹریلیا، بھارت اور جاپان کے نمایندے اتحاد قائم کرنے پر اتفاق کر چکے ہیں، جس کے ذریعے خطے میں تجارتی روابط کو مضبوط کر کے چین کا مقابلہ کیا جاسکے۔ چند ماہ کے دوران بھارت اور چین کے درمیان سرحد پر کشمکش کے باعث اب اس اتحاد کی ترجیحات بدل رہی ہیں اور اس میں امریکا کو شامل کرکے اسے عسکری تعاون کا درجہ دیا جارہا ہے۔ 4فریقی اتحاد کو 2007ء میں سابق جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے کی کوششوں سے غیر رسمی طور پر قائم کیا گیا تھا،جس کے بعد ان ممالک کے درمیان بحیرئہ ہند میں مشترکہ بحری مشقیں بھی ہوئی تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ عدم دلچسپی کے باعث اس پر گرد پڑنے لگی اور اتحاد اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ 2008میں آسٹریلیا ان مشقوں سے نکل گیا اور بھارت نے اسے دوبارہ شرکت کی دعوت نہیں دی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق لداخ میں بھارتی فوج کی ہزیمت کے بعد مودی سرکار ایک بار پھر بحری مشقیں منعقد کرانے کے لیے کوشاں ہے اور باضابطہ طور پر آسٹریلیا کو دعوت دی جائے گی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اکتوبرکے اوائل میں ٹوکیو جائیں گے،جہاں وہ جاپانی، آسٹریلوی اور بھارتی ہم منصبوں کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کی ناکام سفارتی پالیسیوں کے باعث کوئی ملک اس کی قیادت میں کام کرنے اور اعتبار کرنے کو تیارنہیں ہے۔ ادھر جاپان میں نئی حکومت آنے کے بعد اس کی نئی ترجیحات ہیں۔ ان حالات میں چاروں ممالک کے درمیان اتحاد کے حوالے سے یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔