جماعت اسلامی اور تحریک ِ پاکستان

360

سید اسعد گیلانی ؒ
جماعت اسلامی نے ہندوستان و پاکستان میں تبلیغِ اسلام، توسیع دعوت اسلامی، تربیت کردار اور خدمتِ خلق کے میدانوں میں قابل قدر کام کیا۔ ہندوستان میںوہ ایک طرف خوف زدہ مسلمانوں کے درمیان جرأت و ہمت اور عزم و استقلال کا نشان بن گئی اور دوسری طرف اس نے اس دیار میں مسلمانوں کی دینی تعلیم اور مختلف زبانوں میں دین کے لٹریچر کی اشاعت کا گرانقدر کام کیا۔ پاکستان میں اس نے نوجوانوں، طلب علموں، اساتذہ، مزدوروں، تعلیم یافتہ شہریوں، کسانوں اور سیاسی کارکنوں میں اصلاح ِ احوال کی زبردست اور موثر جدوجہد کی۔ یہ اسی دور کی مخصوص اخلاقی تربیت کا نتیجہ تھا کہ وہ بعد کے ادوار میں اس قدر تعمیری، تربیتی اور تبلیغی کام کر سکی۔
یہ بات بھی حقیقت کے خلاف ہے کہ جماعت اسلامی نے تحریک پاکستان میں سرے سے کوئی حصہ ہی نہ لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک پاکستان کو اسلامی قومیت کی جداگانہ نوعیت کی نظریاتی بنیاد فراہم کرنے میں شاید ہندوستان میں سب سے زیادہ موثر اور وسیع تر کام بانیٔ جماعت اسلامی مولانا مودودیؒ نے کیا اور مسلمانوںکی جداگانہ قومیت کے لیے قرآن و سنت سے دلائل فراہم کر کے متحدہ قومیت کے علمبرداروں کے دلائل کا تار و پود بکھیر دیا۔ اس طرح پاکستان کی نظریاتی بنیاد کو مضبوط کرنے میں جماعت اسلامی کے جداگانہ اسلامی قومیت کے دلائل نے بیش بہا کام کیا جس سے مسلم لیگ نے نہ صرف پورا پورا استفادہ کیا بلکہ مولانا مودودیؒ کو تحریک پاکستان سے فکری ہم آہنگ سمجھتے ہوئے ہی ان سے تشکیلِ دستورِ اسلامی کے سلسلہ میں علمی تعاون بھی حاصل کیا۔ مولانا ظفر احمد انصاری سیکرٹری مرکزی پارلیمانی بورڈ، جوائنٹ سیکرٹری آل انڈیا مسلم لیگ نے لکھا کہ مسئلہ قومیت کے موضوع پر مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا سلسلۂ مضامین اپنے دلائل کی محکمی زور استدلال اور زور بیان کے باعث مسلمانوں میں بہت مقبول ہوا اور اس کا چرچا بہت تھوڑے عرصے میں بڑی تیزی کے ساتھ ہندوستان کے مسلمانوںمیں پھیل گیا۔ اس کی اس علمی بحث کی ضرب براہ راست متحدہ قومیت کے نظریہ پر پڑی اور مسلمانوں میں جداگانہ قومیت کا احساس بڑی تیزی سے پھیلنے لگا، یہ بحث ایک طرف مسلم لیگ کے مطالبۂ پاکستان کو تقویت پہنچاتی تھی اور دوسری طرف کانگریس اور جمعیت علماء ہند کے نظریہ متحدہ قومیت پر ضرب کاری کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس لیے مسلم لیگ نے مولانا مودودیؒ کے ان رسائل کو خوب پھیلایا تاکہ مسلمان عوام کانگریس کے کھیل کو سمجھ سکیں اور اپنے دین و ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے متوجہ ہوں۔
اسی بات کو مسلم لیگ کے مشہور رہنما سید شریف الدین پیرزادہ نے اپنی کتاب ’’ارتقا پاکستان‘‘ میں دہرایا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ مولانا مودودیؒ اور دیگر بہت سے حضرات نے ہندو مسلم مسئلے کے حل کے سلسلے میںجو تجاویز پیش کیں وہ سب ایک معنی میں پاکستان تک پہنچنے والی شاہراہ کے ہی سنگ میل تھے۔ البتہ مولانا مودودیؒ مسلم لیگ کے طریق کار سے اختلاف رکھتے تھے ان کا استدلال یہ تھاکہ ایک اسلامی ریاست کے لیے قوم کو اخلاقی حیثیت سے بھی تیار کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے صرف سیاسی جنگ کافی نہیںہے اسی طرح ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کے لیے جدوجہدکرنے والی قیادت کے انتخاب میں بھی احتیاط اور نظریاتی امتیاز و اہتما م کی ضرورت ہے ۔ لیکن اس کے باوجود عملی طور پر مولانا مودودیؒ نظریہ پاکستان کی برابر خدمت کرتے رہے۔ وہ اسلامی ریاست کے خدوخال کی وضاحت، اسلامی نظریہ حیات کی تفصیلات و تشریحات اور تصور پاکستان کی مسلسل تائید کے ذریعے پاکستان کے نظریاتی مستقبل کی خدمت سرانجام دیتے رہے۔ نیشنلسٹ مسلمانوںکے ایک گروہ نے جب تقسیمِ ملک پر اعتراض کیا اور اسے ٹکڑے کرنے کو ناقابل برداشت قرار دیا تو مولانا مودودیؒ بانی جماعت اسلامی نے اس کا جوا ب دیتے ہوئے یہی بات کہی کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ان کے نزدیک اس سوال کی کوئی اہمیت نہیںہے کہ ہندوستان ایک ملک رہے یا دس ٹکڑوںمیں تقسیم ہو جائے۔ تمام روئے زمین ایک ملک ہی تو ہے جب انسان نے اسے ہزاروں ٹکڑوں میں تقسیم کر رکھا ہے تو اس کے مزید تقسیم ہونے میں کیا امر مانع ہو سکتا ہے۔ اس بت کے ٹوٹنے پر تو وہ تڑپے جو اسے معبود سمجھتا ہو اگر کسی ایک مربع میل کے ٹکڑے پر بھی انسان پر خدا کی حاکمیت کے سوا کسی کی حاکمیت نہ ہو تواس کا ایک ذرۂ خاک بھی تمام ہندوستان سے زیادہ قیمتی قرار پا سکتا ہے۔
اسی لیے جب پاکستان کا قیام اصولاً طے پا گیا اور بعض علاقوں میں ریفرنڈم کے ذریعے معلوم کرنے کا فیصلہ ہوا کہ مسلمان پاکستان میں شمولیت چاہتے ہیںیا ہندوستان میں تو مولانا مودودیؒ بانی جماعت اسلامی نے اپنے زیر اثر سب حضرات کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہندوستان کی تقسیم ہندو اور مسلم کی حیثیت سے ہو رہی ہے تو لامحالہ ہر اس علاقے کو جہاںمسلمان قوم کی اکثریت ہے اس تقسیم میں مسلم قومیت ہی کے علاقے میں شامل ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں اگر وعدے کے مطابق اسلامی نظام قائم کیا گیا تو ہم دل و جان سے اس کے حامی اور خادم ہوں گے اور اگر وہاں کوئی غیر اسلامی نظام نافذ ہوا تو ہم اسے تبدیل کر کے اسلامی اصولوں پر ڈھالنے کی جدوجہد اسی طرح کرتے رہیں گے جس طرح موجودہ نظام میں کر رہے ہیں۔
بانی جماعت اسلامی مولانا مودودیؒ کا مسلم لیگ کے ساتھ یہی وہ روادارانہ اور ہمدردانہ تعلق تھا، جس کی وجہ سے انہیں مسلم لیگی حلقوں میں عزت و احترام کا مقام حاصل تھا چناںچہ یوپی مسلم لیگ نے اسلامی نظام مملکت کا خاکہ تیار کرنے کے لیے جب علما کی ایک کمیٹی بنائی تو اس نے مولانا مودودیؒ کو بھی اس کمیٹی کارکن تجویز کیا۔ جسے مولانا مودودیؒ نے بخوشی قبول کر لیا اور اس کام میں پوری دلچسپی اور دلجمعی سے حصہ لیا کمیٹی جن علما پر مشتمل تھی ان میں مولانا سید سلیمان ندویؒ، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ، مولانا آزاد سبحانیؒ اور مولانا عبدالماجد دریابادیؒ شامل تھے۔
یہی وجہ ہے کہ جب جماعت اسلامی کی دعوت اور دستور لے کر جماعت اسلامی کے سیکرٹری جناب قمرالدین خان قائداعظمؒ سے دہلی میںان کی قیام گاہ اورنگ زیب روڈ پر ۱۹۴۱ء میںملے تو قائداعظمؒ نے ۴۵ منٹ تک ان کی بات پورے اطمینان سے سنی اور پھر فرمایا کہ وہ مولانا مودودیؒ کی خدمات کو نہایت پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ریاست کا لازمی حصول ان کے کردار کی تطہیر سے بھی زیادہ اہم ہے اس لیے کہ یہ ان کی زندگی اور قومی وجود کا مسئلہ ہے۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ میںکوئی اختلاف نہیں ہے۔ جماعت اسلامی اگر ایک اعلیٰ مقصد کے لیے کام کر رہی ہے تو مسلم لیگ اس فوری حل طلب مسئلے کی طرف متوجہ ہے جسے اگر حل نہ کیا جا سکا تو جماعت کا کام بھی مکمل نہ ہو سکے گا۔