پھردلوں کو یاد آجائے گا پیغام سجود

1224

آیا صوفیہ بازنطینی طرز تعمیر کا ایک شاہکار تھا جس سے عثمانی طرز تعمیر نے جنم لیا، عثمانیوں کی قائم کردہ دیگر مساجد شہزادہ مسجد، سلیمان مسجد اور رستم پاشا مسجد آیا صوفیہ کے طرز تعمیر سے متاثر ہیں۔ 19 ویں صدی میں مسجد میں منبر تعمیر اور وسط میں خلفائے راشدین کے ناموں کی تختیاں نصب کی گئیں۔ اس کے خوبصورت گنبد کا قطر 31 میٹر (102 فٹ) ہے اور یہ 56 میٹر بلند ہے۔
خلافت ِ عثمانیہ کے سقوط کے بعد جب ترکی سیکولر راہ پر مصطفی کمال اتاترک کی سربراہی میں گامزن ہوا تو اس تاریخی مسجد کو عیسائیوں کی خوشنودی کے لیے 1931 میں بند کردیا گیا اور 4 سال کے عرصے کے بعد 1935 میں اسے دوبارہ کھولا گیا لیکن ایک اب وہ ایک مسجد نہیں بلکہ عجائب گھر کے طور پرسامنے آیا۔
آیا صوفیا 2014 عیسوی کے اعداد و شمار کے مطابق ترکی میں دوسرا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا میوزیم ہے۔ یہاں لوگوں کی سالانہ آمد ورفت تقریباً 3.3 ملین ریکارڈ کی گئی ہے۔ 1616 عیسوی میں سلطان احمد شاہ مسجد (بلیو مسجد) بننے تک آیا صوفیہ مسجد کو استنبول کی مرکزی مسجد کی حیثیت حاصل تھی، آج بھی اس پر شکوہ عمارت کی وہی خوبصورتی برقرار ہے جو مسلمانوں کے شاندار ماضی کی یاد دلاتی ہے۔ الحمدللہ آیا صوفیہ میں 86 سال بعد دوبارہ اذان بلند ہوئی اور اسے میوزیم سے مسجد میں بدل دیا گیا، سلطان محمد فاتح نے اسے مسجد بنایا تھا۔ دہشت گرد ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے بیٹے جس نے حال ہی کہا ہے کہ مجھے آیا صوفیہ کے ساتھ مینار پسند نہیں، ہم قسطنطنیہ کو جلد فتح کریں گے۔
کونسل آف اسٹیٹ نے صوفیہ کو مسجد سے ایک میوزیم میں تبدیل کرنے سے متعلق 24 نومبر 1934 کے کابینہ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آیا صوفیہ ٹرسٹ کی دستاویز میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ آیا صوفیہ کو مسجد کے علاوہ کسی اور مقصدکے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ صدر کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے اس فیصلے کے بعد صدر رجب طیب اردوان نے قوم سے خطاب کیا اور کہا کہ آیا صوفیہ کے دروازے مقامی و غیر ملکی، مسلم و غیر مسلم کے لیے کھلے رہیں گے۔ صدر اردوان نے اسٹیٹ کونسل کے فیصلے کے ساتھ میوزیم کی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے دوبارہ سے مسجد کے طور پر استعمال کے معاملے پر قوم سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ بنی نو انسانوں کا ورثہ آیا صوفیہ اپنی نئی حیثیت کے ساتھ ہر کسی سے بغلگیر ہونے، کہیں زیادہ مخلصانہ ماحول کے ساتھ اپنے وجود کو جاری رکھے گا۔ انہوں نے کہا اپنے نظریے اور سوچ سے ہٹ کر کوئی بھی موقف اور بیان ہماری خود مختاری کی خلاف ورزی تصور کی جائے گی۔ ترک صدر نے کہا ہے کہ ’’آیا صوفیہ کا جنم نو مسجد ِ اقصیٰ کی آزادی کا مژدہ دیتا ہے‘‘۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے ساتھ ہی خبردار کیا ہے کہ آیا صوفیہ کے اقدام پر تنقید ہماری آزادی پر حملہ تصور ہوگا۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق عدالتی فیصلے کے بعد جیسے ہی رجب طیب اردوان نے صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے تو لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد دیوانہ وارآیا صوفیہ کے باہر اکھٹی ہو گئی۔ اس موقع غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق استنبول میں آیا صوفیہ کے باہر ہزاروں کی تعداد میں موجود مرد و خواتین نے نماز کی ادائیگی بھی کی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد ترک شہریوں نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں کہا کہ پہلی نمازکی ادائیگی کے بعد فخر محسوس کررہے ہیں۔ ایک شہری کا کہنا تھا کہ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ آیا صوفیہ میں 24 جولائی کو پہلی نماز ادا کی جائیگی، ترک صدر خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ نماز ادا کرنے والے ایک ترک شہری نے اپنے جذبات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے استنبول دوبارہ فتح ہوا ہے۔
عالم خان ترکی سے ایک لسٹ پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لسٹ احساس کمتری کے شکار فرقہ ملامتیہ کے لیے ہے جو آیا صوفیہ پر سیخ پا ہو رہے ہیں اور مذہبی رواداری اور برداشت کا بھاشن دے کر 86 سال بعد یہ مقدمہ لڑ رہے ہیں کہ سلطان محمد الفاتح کا عمل درست تھا یا نہیں؟ یہ دراصل وہی لوگ ہیں جن کو اپنی میراث کا علم ہی نہیں اور نہ وہ اپنے مغربی محسنوں کے کارنامے جانتے ہیں۔
یہ آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد بنانے پر آہ نکالنے والوں نے کبھی بھی قرطبہ، غرناطہ اور آرمینیا کی مساجد پر مذمتی کلمات نہیں کہے جو چرچوں میں تبدیل کی گئیں ہیں۔ انہوں نے 1928ء کے بعد فلسطین کی ان سترہ مساجد پر بھی کبھی نہیں لکھا ہے جن کو شراب خانوں، قحبہ خانوں، شادی ہالوں اور کیفے ٹیریاز میں تبدیل کیا گیا ہے۔
۱- مسجد البصۃ [جانوروں کا باڑا] ۲- مسجد الزیب [زراعت کا ڈپو] ۳- مسجد عین الزیتون [جانوروں کا باڑا] ۴- المسجد الاحمر [نائٹ کلب بار اور ایوینٹس ہال] ۵- مسجد السوق [ایگزیبیشن ہال] ۶- مسجد القلعۃ [میونسپل آفس] ۷- مسجد الخالصۃ [میوزیم] ۸-مسجد عین حوض [ہوٹل اور شراب خانہ] ۹- المسجد القدیم فی قیساریا [کمپنی آفس] ۱۰- المسجد الجدید فی قیساریا [ہوٹل اور شراب خانہ] ۱۱- مسجد الحمۃ [شراب کا ڈپو] ۱۲- مسجد السکسک [شراب خانہ اور جوا خانہ] ۱۳- مسجد الطابیۃ [کرسچن ہائوس] ۱۴- مسجد عسقلان [ہوٹل اور شراب خانہ] ۱۵- مسجد المالحۃ [قحبہ خانہ] ۱۶- المسجد الکبیر [میوزیم] ۱۷- المسجد الصغیر [یہودی کی دکان]
یہ قانون دان، دانشور اور الموردی کالم نگار 86 سال پہلے آیا صوفیہ کو مسجد بنانے پر واویلا کرتے ہیں لیکن گزشتہ ستر سال کے دوران ان پندرہ15 مساجد پر خاموش ہیں جو یہودیوں نے عالمی قانون کو پامال کرتے ہوئے گرجا گھروں میں تبدیل کی ہیں۔
۱- المسجد الیعقوبی [کلیسا] ۲- مصلی یاقوق [کلیسا] ۳- مصلی الست [کلیسا] ۴- مصلی الشیخ دانیال [یہودی مقبرہ] ۴- مسجد العفولۃ [کلیسا] ۵- مسجد کفریتا [کلیسا]۷- مسجد طیرہ الکرمل [کلیسا] ۸- مصلی الشیخ الشہادۃ [کلیسا] ۹-مصلی سمعان [کلیسا] ۱۰- المسجد النبی یمین [کلیسا] ۱۱- المسجد الیازوری [کلیسا] ۱۲- مصلی آبی ہریرہ [کلیسا] ۱۳- مسجد النبی روبین [کلیسا] ۱۴- مصلی الغرباوی [کلیسا] ۱۵- مسجد وادی حنین [کلیسا]
مزکورہ بالا مساجد ثقافتی ورثہ قرار دینے کے بجائے ویران اور منہدم کی گئیں تاکہ مسلمانوں کی نشانی ختم ہوجائے لیکن اس پر کسی نے افسوس کا اظہار تک نہیں کیا نہ مذہبی رواداری اور انسانی حقوق یاد آئے۔ ترکی کے اس فیصلے سے بہت سے زندہ وجاوید حقائق جنم لیتے ہیں۔ دور حاضر میں اسلامی نظام کا نفاذ قطعی مشکل ہے ناممکن نہیں ہے۔ موجودہ جمہوری نظام ہی میں اسلامی قوانین آئین کا حصہ بنا کر اسی نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کیا جا سکتا ہے۔ جیسے ترکی میں طیب اردوان نے بتدریج ایک سیکولر اور لبرل ملک کو واپس اسلامی ملک میں تبدیل کرنے کی کوششیں تیز کردیں۔ ملکی معیشت کو قرضوں کے چنگل سے آزاد کر کے مضبوط بنا دیا۔
پاکستان میں بھی معاملات زندگی سے دین
اسلام کی تعلیمات کو ختم کرنے کی یہی وہ سوچ ہے جو سیکولرازم کے ذریعے اسلام کو ریاست سے الگ کرنا چاہتی ہے تاکہ ایک طرف عقائد اور عبادات کی مکمل آزادی کا خوش نما نعرہ لگایا جائے اور دوسری طرف ریاست سے سرمایہ دارنہ یا اشتراکی نظریے کی پیروی کروا کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو یورپی طرز پر مادر پدر آزاد معاشرہ بنایا جاسکے۔ سیکولرازم اور اسلام کا ایک ساتھ چلنا ناممکن ہے۔ یا مکمل سیکولرازم ہوگا یا پھر مکمل اسلامی ملک۔ کیونکہ اسلام معاملاتِ زندگی میں الٰہی اصول و قوانین پیش کرتا ہے جبکہ لبرل ازم کا تصور ہی یہ ہے کہ معاملاتِ زندگی میں پیش کیے گئے الٰہی ضابطوں کو رد کیا جائے۔ پاکستان میں لبرل ازم کو فروغ دینے والوں کی بھی خاصی تعداد موجود ہے، جو سیکولر طبقہ فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جو کبھی اسلام آباد میں مندر کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں تو کبھی شراب خانوں کے ناجائز استعمال کے حق میں۔ کبھی سیکس ورکروں کے حق میں آواز اٹھائی جائی ہے تو کبھی سیکس ایجوکیشن کے لیے۔
ان سب کے پیچھے ایک ہی ہاتھ ہے۔ اور وہ ہاتھ ہے ڈالر کا ہاتھ۔ عاقبت نااندیش حکمران چند ٹکوں کی امداد اور دنیاوی زندگی کی زیب و زینت کی خاطر مغربی آقائوں کو خوش کرکے ڈالروں کے عوض ہزار بار ملکی سالمیت، بقاء و سلامتی کے خلاف فیصلے کرتے ہوئے اپنے ہی ہاتھوں اپنے ضمیر کا سودا کرچکے ہیں۔ ایک حاکم کی سزا کئی دہائیوں تک عوام بھگتتے ہیں۔ کمال اتاترک کے فیصلہ کے مضمرات ہمارے سامنے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زندہ قوموں کے طرز پر زندگی گزارتے ہوئے اپنے اصولوں کے خلاف سودے بازی پر اب کی بار پاکستانی عوام بوڑھا بچہ نوجوان عورت مرد کی تخصیص سے بالاتر ہوکر اٹھ کھڑے ہوں۔ اور دنیا کو بتادیں کہ ہم زندہ قوم ہیں۔